Inquilab Logo

میراروڈ کا دارالقضاء، پولیس بھی جس سے رجوع ہونے کا مشورہ دیتی ہے

Updated: June 26, 2021, 7:54 AM IST | sajid mahmood | Mumbai

عائلی مسائل کے حل کیلئے پولیس اسٹیشن آنے والے افراد کو پولیس افسران دارالقضاء بھیج دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ برادرانِ وطن بھی اس سے استفادہ کررہے ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے زیراہتمام جاری اس دارالقضاء میں زیادہ تر معاملات خلع ، فسخ نکاح اور میراث سے متعلق ہوتے ہیں۔ یہاں کاؤنسلنگ سینٹر بھی قائم ہے

Darul Qaza located in Darul Khair  building of Nyangar. Picture:Inquilab
نیانگر کی دارالخیرنامی عمارت میں واقع دارالقضاء ۔ (تصویر: انقلاب)

 یہاں گزشتہ ۳؍برس سے دارالقضاء قائم ہے جہاں مسلمانوں کے خاندانی و عائلی اختلافات اور زوجین کے باہمی  تنازعات پر شریعت کی روشنی میں فیصلے کئے جاتے ہیں۔ اس کا  دفتر میراروڈ کے نیا نگر علاقے میں جنتا ڈیری کے قریب دارالخیر نامی بلڈنگ میں واقع ہے ۔  میراروڈ کا دارالقضاء آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے زیر اہتمام جاری  ہے اور قاضی کا تقرر مسلم پرسنل لاء بورڈ کرتا ہے مگر یہاں انتظامی امور  ’میرابھائندر دارالقضاء فاؤنڈیشن ‘ نام کی ایک غیرسرکاری تنظیم دیکھتی ہے جو دراصل مسلمانوں کے سبھی مسلک و فرقے کے لوگوں کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے ۔ اس میں میراروڈ کی سبھی دینی و ملّی جماعتیں شامل ہیں جن میں نمایاں نام جماعت اسلامی ،جمعیۃ العلماء،وحدت اسلامی،تنظیم اسلامی ،موومنٹ فار ہیومین ویلفیئر کے علاوہ اہل حدیث،سنّی اور اہل تشیع کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ میراروڈ کا دارالقضاء ملت اسلامیہ کے اتحاد کی بہترین مثال ہے ۔
       دارالقضاء میراروڈ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے مولانا مطیع الرحمٰن قاسمی کو قاضی ٔ شہر مقرر کیا گیا ہے جو  بھیونڈی شہر کے بھی قاضی ٔ شہر ہیں اور جزوقتی طور پر میراروڈ کے قاضی مقرر ہوئے ہیں۔  وہ ہفتے میں ۲؍ دن  سنیچر  اوراتوارکو  میراروڈ میں آتے ہیں اور مقدمات فیصل کرتے ہیں۔ قاضی مطیع الرحمٰن قاسمی  نےاس بارے میں بتایاکہ ’’ممبئی و اطراف کے دارالقضاء میں سب سے زیادہ مقدمات میراروڈ کے دارالقضاء میں آتے ہیں۔  اس کے علاوہ یہاں سنگین نوعیت کے کیس بھی آتے ہیں۔ یہاں کام کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ‘‘ دارلقضاء میں آنے والے معاملات پر انہوں نے کہا  کہ ’’یہاں بیشتر معاملات خلع ،فسخِ نکاح اور میراث سے متعلق آتے ہیں۔۲۵؍ فیصد معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں شوہر بیوی کی رخصتی کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ ان کی بیویاں بلاوجہ میکے میں بیٹھی رہتی ہیں۔ ۲۵؍ فیصد معاملات فسخ نکاح کے آتے ہیں جن میں شوہر غائب ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ خلع کے معاملات بھی آتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’بعض معاملات میں گھر والوں کا کردار بھی قابل مذمت ہوتا ہے جن کی وجہ سے زوجین کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے اور دینی تعلیم کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے ۔ اس لئے اسلامی بنیادوں پر تربیت کی ضرورت ہے۔ 
        دارالقضاء کے قیام کا پس منظر بیان کرتے ہوئے  دارالقضاء فاؤنڈیشن میرابھائندر کے جنرل سیکریٹری ایڈوکیٹ شہود انور نے کہا کہ ’’ اس کے قیام کی کوشش۲۰۱۷ء  سے ہو رہی تھی۔ میراروڈ میں ایک لاکھ مسلم جوڑے رہتے ہیں۔  ان کے درمیان اکثر باہمی تنازعات ہوتے رہتے ہیں جو آگے چل کر پولیس چوکیوں اور عدالتوں تک چلے جاتے ہیں۔ میراروڈ میں ایسے واقعات دیکھنے میں آئے کہ مسلم خواتین کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔  وہیں بعض معاملات میں خواتین کی جانب سے بھی زیادتی کی شکایتیں موصول ہوتی تھیں۔  بعض ایسے واقعات بھی پیش آئے جن میں زبانی طلاق کے بعد بھی پولیس اسٹیشن کے توسط سے  میاں بیوی کا رشتہ زبردستی قائم کیا گیا جس کی وجہ سے زوجین کے درمیان حرام تعلقات استوار ہوئے۔  عدالتوں میں گھریلو تشدد کے معاملات آنے لگے اور وہاں اسلامی تعلیمات مذاق کا نشانہ بننے لگیں ۔ پردہ نشین ماں بہن اور بیٹیاں پولیس چوکیوں اور عدالتوں میں کھڑے رہنے پر مجبور تھیں۔  میراروڈ کے معاشرتی معاملات کو دیکھتے ہوئے اس پر کام شروع ہوا ۔ ملّی رہنماؤں،دینی جماعتوں کے ذمہ داروں ، سیاستدانوں اور سماجی کارکنوں سے ملاقاتیں کی گئیں اور سب کے باہمی مشورے و رضامندی سے دارالقضاء قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔۲۰۱۸ء  میں دارالقضاء کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔ ‘‘دوران گفتگو ایڈوکیٹ شہود انور نےیہ بھی  بتایا کہ ’’دارالقضاء میں نہ صرف مسلمانوں کے خاندانی تنازعات حل ہوئے بلکہ بہت سے غیر مسلم خاندانوں نے بھی اپنے تنازعات کے حل کیلئے  رجوع کیا۔
  دارالقضاء فاؤنڈیشن میرابھائندر کے صدر ڈاکٹر عظیم الدین نے بتایا کہ ’’یہ دارالقضاء میراروڈ اور اطراف کے مسلمانوں کیلئے  بڑی نعمت ہے۔  مسلمان عدالتوں کے چکّر کاٹنے سے بچ جاتے ہیں اور ان کا وقت بھی بچ جاتا ہے۔ یہاں کیس رجسٹرڈ کرنے کی بہت معمولی فیس صرف دو ہزار روپئے لی جاتی ہے۔ ‘‘انہوں نے یہ بھی بتایا کہ’’ اب تک سیکڑوں کیس یہاں آئے جن کی وجہ سے قوم کے کروڑوں روپے برباد ہونے سے بچ گئے۔ دارالقضاء میں ایک کاؤنسلنگ سینٹر بھی قائم ہے جس کی فیس نہیں ہے۔  اب تک ایسے سیکڑوں کیس آئے جن میں میاں بیوی علاحدگی اختیار کرنا چاہتے تھے مگر کاؤنسلنگ کے بعد ان کے درمیان غلط فہمی کا ازالہ ہو گیا اور وہ دوبارہ ساتھ رہنے پر راضی ہو گئے۔‘‘ڈاکٹر عظیم الدین کے مطابق ’’دارالقضاء کے کام کاج سے متاثر ہوکر مقامی پولیس افسران بھی پولیس اسٹیشن میں آنے والے افراد کو دارالقضاء  جانے کا مشورہ دیتے ہیں اور مقامی پولیس اسٹیشن سے دارالقضاء کے ذمہ داران کے اچھے روابط ہیں ۔‘‘

darul qaza Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK