ناگپاڑہ، مورلینڈ روڈ اور آگری پاڑہ کے بعد مراٹھا مندرروڈ سے جمعرات کو ۶۲؍ جھوپڑا باسیوں کو مکند نگر ،چمبور منتقل کیا گیا۔ یہ جھوپڑے والے شہری انتظامیہ سے ناخوش ہیں۔
EPAPER
Updated: January 17, 2020, 2:18 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
ناگپاڑہ، مورلینڈ روڈ اور آگری پاڑہ کے بعد مراٹھا مندرروڈ سے جمعرات کو ۶۲؍ جھوپڑا باسیوں کو مکند نگر ،چمبور منتقل کیا گیا۔ یہ جھوپڑے والے شہری انتظامیہ سے ناخوش ہیں۔
ممبئی : ناگپاڑہ، مورلینڈ روڈ اور آگری پاڑہ کےبعد مراٹھا مندرروڈ سے جمعرات کو ۶۲؍ جھوپڑا باسیوں کو مکند نگر ،چمبور منتقل کیا گیا۔ یہ جھوپڑے والے شہری انتظامیہ سے ناخوش ہیں۔ آگری پاڑہ ریسیڈنٹ اسوسی ایشن، آربی آئی اسٹاف کوارٹر س اور جگجیون رام اسپتال کے ذمہ داران نے جھوپڑوں کو منہدم کئے جانے سے راحت کا سانس لیا ہے۔
مراٹھا مندرروڈپرگزشتہ ۴۰؍سال سے آباد ۶۲؍جھوپڑوںکو بی ایم سی کے انہدامی دستہ نے جمعرات کو پولیس بندوبست میں منہدم کردیا۔ ان میں سے ۵۳؍جھوپڑے والوںکو مکند نگر میں مکان دیاگیاہے جبکہ ۹؍جھوپڑے والوںکو دستاویزات کی کمی کے سبب گھر نہیں مل سکاہے اس لئے وہ شہری انتظامیہ سے ناراض ہیں۔
محمد طاہر جو اپنے والدین اور بھائی بہن کے ساتھ گزشتہ ۴۰؍سال سے یہاںرہائش پزیر تھے ،نے بتایاکہ سروے نمبر ہونےکےباوجو د انہیں گھر نہیں دیاگیاہے جبکہ ان کی والدہ کو ان کے دستاویزات کی بنیاد پرگھر مل گیاہے۔شہری انتظامیہ نے میرے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ ساجد محمد کےمطابق ’’ گزشتہ ۱۵؍سال سے میں ایک جھوپڑے میں کرایہ پر رہ رہا تھا۔ بچوںکی پڑھائی کا نقصان نہ ہو اس لئے میں نے مدنپورہ میں کرایہ پر گھر لے لیاہے۔ یہاں آرام تھا۔ہر طرح کی سہولت تھی لیکن ہمارے ہی لوگوںکی لاپروائی تھی سے یہ دن دیکھنےکو ملاہے۔
ریزرو بینک آف انڈیا اسٹاف کوارٹرس مراٹھا مندرروڈ میں رہائش پزیر آفیسر اجے آمبرے نے انقلاب سےبات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ان جھوپڑاباسیو ںسے علاقے کے تمام لوگ بیزار ہوگئے تھے۔ روزانہ کی لڑائی ، گالی گلوچ ، گندگی ، غلاظت ، غنڈہ گردی اوربدمعاشی سے سب پریشان تھے۔ انہوںنےفٹ پاتھ ہی نہیں ہماری کالونی کی بانڈری پر بھی قبضہ کرلیاتھا۔ شکایت کرنے پریہ لوگ جھگڑےپر آمادہ ہوجاتےتھے۔ بعض دفعہ تو کالونی میں ان لوگوں نے پتھرائو بھی کیاتھا۔ اس کےعلاوہ دیر رات تک جاگتے اور شورشرابہ کرتےتھے۔ ان کی وجہ سے ہمارے بچوںکا ماحول بھی متاثرہورہاتھا۔ حالانکہ ان میں کچھ ایسے بھی جھوپڑا باسی تھے جو اپنے بچوں کےمستقبل کیلئے فکر مند تھے۔ وہ اچھی زندگی جینا چاہتے تھے لیکن وسائل نہ ہونے سے مجبورتھے۔‘‘انہوںنےیہ بھی کہاکہ ’’گزشتہ کئی سال سےعلاقے کی متعدد تنظیمیں انہیں یہاں سے منتقل کرنےکیلئے کوشاں تھیں مگرکامیابی اب ملی ہے جس کیلئے ہم مقامی کارپوریٹر رئیس شیخ اور رکن اسمبلی یامنی جادھوکےمشکور ہیں۔‘‘
آگری پاڑہ ریسیڈنٹ اسوسی یشن کے صدر سید عمران اور جگجیون رام اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے بھی اس کارروائی پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔