Inquilab Logo

دھاراوی :۱۰؍لاکھ ملازمین کے بے روزگار ہونے کا اندیشہ

Updated: February 04, 2024, 9:54 AM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

اڈانی ہٹاؤ دھاراوی بچاؤ مہم میں شامل افراد شدید فکر مند، انہیں پولیس نےآج احتجاجی جلسہ عام کی اجازت نہیں دی، مظاہرین کا کہنا ہے کہ جس جگہ پولیس نےاجازت دی ہے۔ وہاں وہ احتجاج نہیں کرنا چاہتے،دوٹوک کہا’’ہمارا موقف واضح ہے، ہردھاراوی واسی کو یہیں رہائش اور روزی روٹی کمانے کا موقع دیا جائےنیزاڈانی کا ٹھیکہ رد کیا جائے۔‘‘

Meetings are going on at more than 40 places in Dharavi to create awareness against the Adani project. Photo: INN
اڈانی پروجیکٹ کے خلاف بیداری کیلئے دھاراوی میں ۴۰؍ سے زائد مقامات پر میٹنگیں جاری ہیں۔ تصویر : آئی این این

دھاراوی ۹۰؍فٹ روڈ پر اڈانی ہٹاؤ دھاراوی بچاؤ مہم چلانے والو ں کواتوار کے لئے احتجاجی جلسہ عام کی پولیس نے اجازت نہیں دی۔ اس وجہ سے مہم چلانے والوں نےجلسہ ملتوی کردیا ہے۔ ۸؍ دنوں سے مہم چلائی جارہی تھی اور اتوار کومہم کا آخری دن تھا، اسی کے پیش نظر احتجاجی جلسہ ٔ عام کی تیاری کی جارہی تھی۔ منتظمین نے فیصلہ کیا ہے کہ جلد ہی نئی تاریخ کااعلان کیا جائے گا۔ اس جلسے میں ادھو ٹھاکرے کو مدعو کیا گیا تھا وہ مصروف ہیں اورایم ایل اے ورشا گائیکواڑ بھی نہیں ہیں، اس لئے بھی تاریخ آگے بڑھائی جارہی ہے۔ پولیس کی جانب سے متبادل کے طور پر گولڈ فیلڈ کے سامنے سائن باندرہ لنک روڈ پراجازت دی جارہی تھی لیکن اسے منتظمین نے نامنظور کردیا۔
مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ اڈانی کے ذریعے ڈیولپمنٹ سے۱۰؍لاکھ لوگوں کے بے روزگار ہونے کااندیشہ ہے۔ یہ فیکٹری، دکانوں اور گارمنٹ کارخانوں وغیرہ میں کام کرنے والے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اڈانی کے ذریعے ڈیولپمنٹ میں کارخانوں، تجارتی مراکز اورفیکٹری وغیرہ کی گنجائش نہیں بتائی جارہی ہے۔ ۲۴؍ جنوری کو شروع کردہ اور ۸؍ دن تک جاری رہنے والی بیداری مہم میں۴۰؍ سے زائد مقامات پرچھوٹی بڑی میٹنگیں کی گئیں۔
مہم چلانے والوں میں پیش پیش رہنے والے بھالے راؤ نے بتایاکہ’’۱۰؍لاکھ کی تعداد اس لئے بتائی جارہی ہے کہ چھوٹی بڑی دکانوں، چمڑے کے کاروبار، مختلف اشیاء تیار کرنےوالے چھوٹی چھوٹی فیکٹری، کارخانے اورگارمینٹ کارخانوں میں یہ لوگ کام کرتے ہیں۔ اڈانی کے ذریعے ڈیولپمنٹ میں دھاراوی میں کوئی کاروباری سینٹر نہیں ہوگا۔ اس لئے یہ سب روزی روٹی سے محروم ہوجائیں گے۔‘‘
کامریڈ نصیر الحق نے کہاکہ ’’یوں تو ۲۰؍ لاکھ لوگوں کا مسئلہ ہے۔ ۱۰؍ لاکھ سے زائد لوگ یہاں کام کرتے ہیں اور۵؍ لاکھ لوگ یہاں رہنے والے ہیں، ان میں کئی لاکھ ووٹر ہیں۔ ۵؍لاکھ ایسے ملازمین ہیں جو مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں اور وہ رہتے دھاراوی میں ہیں۔ ان تقریباً ۵؍لاکھ لوگوں کے قیام کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ایک کمرے میں ۵؍ ۶؍ یا ۷؍ لوگ رہتے ہیں۔ وہ مل کرکرایہ ادا کرتے ہیں جس سے ان کو۸۰۰؍ سے ایک ہزارروپے خر چ میں سرچھپانے کی جگہ مل جاتی ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر تقریباً ۲۰؍ لاکھ لوگ متاثر ہورہے ہیں اورتین سے ۴؍لاکھ لوگوں کو ملنڈ بھیجنے کی تیاری کی گئی ہے، اس کی بھی شدت سے مخالفت کی جارہی ہے۔‘‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ’’ ہم سب کا مطالبہ یہی ہے کہ ہرشخص کوگھرملے اور جوبھی جس کاروبار سےجڑا ہوا ہے، اسے کاروبار اورروزی روٹی کمانے کا موقع دھاراوی میں ہی ملے اور اڈانی کا ٹھیکہ رد کیا جائے۔ اس کے سوا کچھ بھی منظور نہیں ہے۔ اس کے برخلاف اب تک اڈانی کے ڈیولپمنٹ کا جوماڈل سامنے آیا ہے اس میں یہ صاف ہوگیا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں کے آشیانے چھین لئے جائیں گے ،وہ روزی روٹی سے محروم کردیئے جائیں گے اوریہاں رہنے والوں کوباہر دھکیل دیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اڈانی کی یہاں کی قیمتی زمین پر اوراپنے وکاس کاپرنگاہ ہے، دھاراوی واسیوں کے مفادات سے انہیں کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘‘ شیوسینا کے سابق ایم ایل اے بابو راؤمانے نے کہا کہ’’اڈانی ہٹاؤ دھاراوی بچاؤ مہم کا مقصد واضح ہے،نہ توکسی دھاراوی واسی کا باہر بھیجنا ہم لوگوں کومنظورہے اورنہ ہی روزی روٹی سے اسے محروم کرنا۔ اس کے علاوہ سب سےبڑی بات یہ ہے کہ ہم سب نے اڈانی ماڈل دیکھ لیا ہے اس لئے اڈانی کے ذریعے ہمیں دھاراوی کاڈیولپمنٹ کسی صورت منظور ہی نہیں ہے۔ مہم چلانے والوں میں شامل تمام سیاسی جماعتوں ا ور مقامی تاجروں کی اسوسی ایشن اورعوام کو مکمل بھروسہ ہےکہ ہم سب کامیاب ہوں گے اورحکومت اڈانی کودیا گیا ٹھیکہ ایک نہ ایک دن رد کرنے پرمجبور ہوگی۔‘‘انہوںنے یہ بھی کہاکہ ’’۱۰؍لاکھ کی تعداد ا س لئے بھی ہے کہ یہاں ۱۵؍ ہزار چھوٹے بڑے کارخانے ہیں ۔ایک دکان اور کارخانےمیں ۵؍ ۱۰؍ ۲۰؍ سے ۲۵؍اوراس سے بھی زائدملازم کام کرتے ہیں۔ اس طرح یہ تعداد۱۰؍ لاکھ سےزائد ہی ہوگی۔ ‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK