سنگولا میں رکن اسمبلی شاہ جی باپو پاٹل کے دفتر پر چھاپہ کے بعددعویٰ کیا کہ امیت شاہ شندے سینا کا بھی وہی حال کریں گے جو شیوسینا کا کیا ہے، اتحاد سے متعلق رویندر چوان کا بیان بھی یاد دلایا
EPAPER
Updated: December 02, 2025, 12:03 AM IST | Mumbai
سنگولا میں رکن اسمبلی شاہ جی باپو پاٹل کے دفتر پر چھاپہ کے بعددعویٰ کیا کہ امیت شاہ شندے سینا کا بھی وہی حال کریں گے جو شیوسینا کا کیا ہے، اتحاد سے متعلق رویندر چوان کا بیان بھی یاد دلایا
پیر کو سنگولا میں ایکناتھ شندے گروپ کے رکن اسمبلی شاہ جی باپو پاٹل کے دفتر پر فلائنگ اسکواڈ کے چھاپہ نے مہاراشٹر میں حکمراں محاذ میں اختلافات کے تعلق سے جاری چہ میگوئیوں پر مہر لگا دی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مارے گئے اس چھاپہ کے بعد شیوسینا(اُدھو) کے ترجمان سنجے راؤت نے مہایوتی پر زوردار حملہ کیا۔
انہوں نے ایکناتھ شندے کی قیادت والی شیو سینا کو نشانہ بنایا اور کہا، ’’بی جے پی کے لیڈر امیت شاہ ہی اسے بھی تباہ کریں گے۔‘‘راؤت نے دعویٰ کیا کہ کم از کم ۳۵؍ ایم ایل اے شندے گروپ سے الگ ہو جائیں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ شندے کی سینا کو’’کھوکھلا‘‘ کرنے کیلئےبنیاد رکھی جا چکی ہے۔ راؤت نے ’’پیٹھ میں چھرا گھونپنے‘‘ کی بی جےپی کی عادت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’شندے کو ہٹانے کیلئے وہ ویسی ہی کارروائی ہوگی جیسی متحدہ شیو سینا کے ساتھ کی گئی تھی۔ بی جے پی نے اس مقصد کے تحت ڈومبیولی کے رویندر چوان کو ریاستی صدر بنایا ہے۔ وہ سیاست جانتے ہیں۔ بی جے پی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی تاریخ رہی ہے، انہوں نے بال ٹھاکرے کے ساتھ بھی یہی کیا تھا۔‘‘واضح رہے کہ بلدیاتی انتخابات میں حکمراں زعفرانی محاذ کی پارٹیاں آمنے سامنے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے درمیان تناؤ بڑھ رہا ہے۔اسی تناؤ کے بیچ بی جےپی کے ریاستی صدر رویندر چوان کے گزشتہ دنوں کے اس بیان نے ہلچل مچا دی ہے کہ ’’انہیں اتحاد کو صرف۲؍ دسمبر تک برقرار رکھنا ہے۔‘‘ اس بیان سے یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں کہ بی جے پی اور شیو سینا کا اتحاد ٹوٹ سکتا ہے۔
سنجے راؤت، جو گزشتہ ایک ماہ سے بیماری کے باعث عوامی سطح پر سرگرم نہیں تھے، نے پیر کو میڈیا سے خطاب کیا اور بی جےپی پر مہاراشٹر کی سیاسی تہذیب اور اخلاقیات کو تباہ کرنے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’پچھلے ۵؍ برسوں میں دیویندر فرنویس کی قیادت میں انتخابات پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے، جس نے ریاست کی انتخابی روایت بگاڑ دی۔ کبھی وزیر اعلیٰ یا حکومت نے مقامی سطح کے الیکشن میں مداخلت نہیں کی۔ پارٹی کارکن اپنے طور پر لڑتے تھے۔‘‘