Inquilab Logo

تمل ناڈو میں ڈی ایم کے کی شاندار جیت، کیرالا میں بایاں محاذ اقتدار میں واپس

Updated: May 03, 2021, 3:12 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

اتحادیوں کی مدد سے آسام اور پڈوچیری میں بی جے پی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب مگر کیرالا میں کھاتا بھی نہیں کھول سکی اور تمل ناڈو میں’ اے آئی اے ڈی ایم کے‘ سے اتحاد کے باوجود تین سیٹوں پر سمٹ گئی۔ کمل ہاسن کی پارٹی کو صرف ایک سیٹ پر اکتفا کرنا پڑا۔کیرالا میں بی جے پی کے وزیراعلیٰ کے امیدوار’میٹرومین ‘ سری دھرن بھی نہیں جیت سکے۔مسلم لیگ کو ۱۵؍ سیٹیں ملیں

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج میں آسام کو چھوڑ کر باقی تمام  ریاستوں کے نتائج توقع کے عین مطابق رہے۔ آسام میں   یوپی اے اور این ڈی اے کے درمیان سخت مقابلے کی امید تھی لیکن اتحادیوں کی مدد سے بی جے پی اقتدار کو واپس حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ تمل ناڈو میں جہاں ڈی ایم کے  نے تنہا واضح اکثریت حاصل کرلی ہے وہیں کیرالا میں بایاں محاذ اپنا قلعہ بچانے میں کامیاب رہا۔اسی طرح  اتحادیوں کی مدد سے پڈوچیری میں بھی بی جے پی  نے جیت حاصل کرلی ہے البتہ تمام تر کوششوں اور ہر ممکنہ حربہ آزمالینے کے باوجود کیرالامیں جہاں بی جے پی اپنا کھاتا بھی نہیں کھول سکی ہے، وہیں تمل ناڈو میں ’اے آئی اے ڈی ایم کے‘ سے اتحاد کے باوجود صرف تین سیٹوں پر سمٹ گئی ہے۔ کیرالا میں  بی جے پی نےمیٹرو مین ’سری دھرن‘ کو وزیراعلیٰ کاا میدوار نامزد کیا تھا، لیکن وہ  خود بھی نہیں جیت سکے۔گزشتہ اسمبلی میں بی جے پی کی ایک سیٹ تھی، اس مرتبہ وہ بھی چلی گئی البتہ اس کے ووٹ فیصد میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ 
 تمل ناڈومیں ڈی ایم کے نے زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔ یہاں پر اسٹالن کی قیادت میں ڈی ایم کے نے ۲۳۴؍ رکنی اسمبلی میں تنہا ۱۲۸؍ سیٹیں حاصل کرلی ہے جبکہ اس کی اتحادی جماعتیںکانگریس اور ’وی سی کے‘  نے باالترتیب  ۱۶؍ اور ۴؍ سیٹیں حاصل کرلی ہیں۔  بنگال کی طرح یہاں بھی کامیابی کیلئے بی جے پی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔ یہاں پربھی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امیت شاہ نے انتخابی ریلیاںکی تھیں لیکن اسے کچھ خاص فائدہ نہیں مل سکا۔ عین انتخابات کے وقت ڈی ایم کے اوراس کی اتحادی جماعتوں کے لیڈورں کے گھروں پر مرکزی جانچ ایجنسیوں کے چھاپوں کو اپوزیشن نے  بی جے پی کاانتخابی حربہ قرار دیا تھا ،اس کے باوجود وہ تین سیٹوں پر سمٹ گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے ’اے آئی اے ڈی ایم کی‘ کی مدد سے تین سیٹیں تو مل گئیں لیکن اس کے ووٹوں کی شرح گزشتہ اسمبلی الیکشن کے مقابلے کم ہوگئی۔ ۲۰۱۶ء میں بی جے پی کو کوئی سیٹ نہیں مل سکی تھی لیکن اسے ۲ء۸۶؍ فیصد ووٹ ملے تھے لیکن اس مرتبہ اسے صرف ۲ء۷۶؍ فیصد ہی ووٹ مل سکے۔    اس طرح یہاں پر تمل ناڈو پر گزشتہ ۱۰؍ سال سے جاری ’اے آئی اے ڈی ایم کے‘ کی حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا۔  حیرت انگیز طور پر سپر اسٹار کمل ہاسن کی پارٹی کو صرف ایک ہی سیٹ پر اکتفا کرنا پڑا، حالانکہ انہوں نے کافی محنت کی تھی۔
 کیرالا میں لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ (ایل ڈی ایف) نے  اقتدارمیں واپسی کا راستہ ہموار کرلیا ہے۔یہاں پر ۱۴۰؍ رکنی اسمبلی میں بایاں محاذ۸۰؍ سے زائد سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے جبکہ اپوزیشن کانگریس کی زیرقیادت متحدہ ڈیموکریٹک مورچہ۴۰؍ سیٹوں  پر سمٹ گیا ہے۔اس میں کانگریس کو ۲۱؍ اور انڈین مسلم لیگ کو ۱۵؍ سیٹیں ملی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی نے سبری مالا اور نام نہاد ’لو جہاد‘  کے حوالے سے ریاست کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگنے کی کوپوری کوشش کرڈالی تھی اور اس کیلئے میٹرو مین سری دھرن کو پیش پیش کیا تھا لیکن اس کا بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ملا۔  گزشتہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو ایک سیٹ مل گئی تھی لیکن اس مرتبہ وہ سیٹ بھی اس کے ہاتھ سے گئی۔ سری دھرن کو بی جے پی نے اپنا وزیراعلیٰ کا امیدوار نامز د کیا تھا لیکن وہ اپنی سیٹ بھی نہیں بچا سکے۔ انہیں کانگریس کے امیدوار شفیع پرمبل نے شکست سے دوچار کیا البتہ ریاست میں بی جے پی کے ووٹوں کے تناسب میں معمولی سا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ الیکشن میں اسے ۱۰ء۶؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ اس مرتبہ اسے ۱۱ء۳؍ فیصد ووٹ ملے۔
 آسام میں سربانند سونوال کی سربراہی میں بی جے پی اپنے اتحادیوں کی مدد سے ایک بارپھر ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کی جانب پیش قدمی کررہی ہے۔گزشتہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو ۶۰؍ سیٹیں ملی تھیں جبکہ اس مرتبہ اسے ایک سیٹ کے نقصان کے ساتھ ۵۹؍ سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑرہا ہے البتہ اتحادیوں کی مدد سے وہ اقتدار پر قبضہ جمانے کی پوزیشن میں ہے۔اس مرتبہ اپوزیشن کی طاقت میں قدرے اضافہ ہوا لیکن وہ اقتدار تک نہیں پہنچ سکتی۔گزشتہ الیکشن میں کانگریس  اور یو ڈی ایف کو بالترتیب ۲۶؍ اور ۱۳؍ سیٹیں ملی تھیں جبکہ اس مرتبہ انہیں ۳۱؍ اور ۱۵؍سیٹیں ملی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہاں پر بی جے پی کو فرقہ وارانہ ماحول  پیدا کرنے کا سیاسی فائدہ ملا ہے۔  
 پڈوچیری میں این آر کانگریس کی سربراہی میں بی جے پی اتحاد کامیابی کی طرف رواں دواں ہے۔ ۳۰؍ رکنی اسمبلی میں  این آر کانگریس کو ۱۰؍ اور بی جے پی کو ۵؍ سیٹیں ملی ہیں جبکہ کانگریس اور ڈی ایم کے اتحاد کو ۸؍ سیٹیں ہی مل سکی ہیں۔ یہاں پر ۶؍ امیدواربطور آزاد کامیاب ہوئے ہیں۔خیال رہے کہ ریاست میں کانگریس کے متعدد اراکین اسمبلی کے استعفیٰ دینے کے بعد اسے اسمبلی میں کافی نقصان ہوا ہے۔
 مغربی بنگال میں بی جے پی نے پورا زور صرف کردیا تھا اور اس کیلئے بقول اپوزیشن ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کیا گیا تھا لیکن اہل بنگال نے بی جے پی کو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ تمام تر کوششوں کے بعد بھی بی جے پی یہاں پر دو ہندسوں میں سمٹ گئی ہے جیسا کہ پرشانت کشور نے دعویٰ کیاتھا۔
 ملک میں کورونا انفیکشن کے بڑھتے معاملات کے پیش نظر الیکشن کمیشن نے انتخابات میں کامیابی کے بعد کسی بھی پارٹی کے انتخابی جلوس اورلوگوں کے ایک ساتھ جمع ہونے سے متعلق ریاست کے چیف سیکریٹریوں کو انہیں روکنے کیلئے ہدایت دی ہے۔ ان تمام چارریاستوں اورپڈوچیری میں ۲۷؍ مارچ سے۲۹؍ اپریل تک انتخابات منعقدکرائے گئے تھے۔ مغربی بنگال میں۸؍ مراحل میں انتخاب کرائے گئے تھے جبکہ آسام میں تین اورتمل ناڈو، کیرالا اورپڈوچیری میں ایک ایک دور میں ووٹنگ ہوئی تھی۔ مجموعی طور پرپانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج پر ملک میں اطمینان کی لہر دیکھی جارہی ہے۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی بیشتر جماعتوں نے کامیاب جماعتوں کو مبارکباد پیش کی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK