ایران کے صدر مسعود پیز شکیان نے تجویز پیش کی ہے کہ ای سی او (اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن) ممالک ڈالر کی جگہ علاقائی کرنسی لا سکتے ہیں۔
EPAPER
Updated: October 30, 2025, 6:11 PM IST | Tehran
ایران کے صدر مسعود پیز شکیان نے تجویز پیش کی ہے کہ ای سی او (اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن) ممالک ڈالر کی جگہ علاقائی کرنسی لا سکتے ہیں۔
اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کا اجلاس ان دنوں ایران کی میزبانی میں تہران میں جاری ہے۔ مسعود پیزشکیان نے تاجک وزیر داخلہ رمضان رحیم زادہ سے غیر رسمی گفتگو میں علاقے میں اپنے تجارتی شراکت داروں کے لیے ایک تجویز کے طور پر کہا کہ باہمی تجارت کو ڈالر کی گرفت سے نکال کر علاقے کی سطح پر ایک مشترکہ کرنسی متعارف کرائی جا سکتی ہے۔
خیال رہے کہ ای سی او پلیٹ فارم علاقائی سطح پر معاشی تعاون و اشتراک کو بڑھانے کے لیے قائم کیا گیا ہے، اس تنظیم کا آغاز ۱۹۸۰ء میں ایران، ترکی اور پاکستان کی کوششوں سے ہوا تھا، تاہم اس تجارتی پلیٹ فارم میں مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے والی کئی ریاستیں بھی شامل ہیں اور اس کے اراکین کی تعداد۱۰؍ہو چکی ہے۔
مسعود پیز شکیان نے کہا کہ خطے کے ملک مذہبی اور ثقافتی رشتے میں جڑے ہوئے ہیں، اس لیے علاقے میں باہمی طور پر بہتر اور قریبی تعاون کی کوششوں کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے، حتیٰ کہ مشترکہ کرنسی کو بھی جاری کیا جا سکتا ہے تاکہ معاشی ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔ بین الاقوامی سطح پر ایران کو ایک عرصے سے سخت پابندیوں کا سامنا ہے، یہ پابندیاں زیادہ تر امریکہ اور یورپی ملکوں نے عائد کر رکھی ہیں، جس کی وجہ ایران کا جوہری پروگرام ہے، جس کو اسرائیل اور امریکہ نے جون میں جنگی جارحیت کا نشانہ بھی بنایا تھا۔
ایران اپنی سلامتی کو درپیش چیلنجوں اور اقتصادی پابندیوں سے درپیش گہری مشکلات سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہے۔ صدر پیزشکیان نے کہا کہ اگر علاقے کے ملک معاشی اور ثقافتی اعتبار سے اکٹھے ہو جائیں تو وہ اقتصادی پابندیوں کے باوجود اپنی معاشی ترقی کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:اے آئی چِپس بنانے والی این ویڈیا دنیا کی پہلی ۵؍ ٹریلین ڈالرس مالیت والی کمپنی بن گئی
اے آئی کی وجہ سے دنیا بھر کی کمپنیوں نے ملازمتوں میں کٹوتی کی رفتار تیز کردی
کمزور معاشی رجحانات اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث عالمی کمپنیوں میں ملازمتوں میں بڑے پیمانے پر کمی کی جانے لگی ہے۔روئٹرس کے مطابق دنیا بھر کی کمپنیوں نے ملازمتوں میں کٹوتی کی رفتار تیز کر دی ہے، بڑی بین الاقوامی کمپنیوں، جن میں امیزون ، نیسلے اور یو پی ایس شامل ہیں، نے اخراجات میں کمی شروع کر دی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ ایک صارفین کے اعتماد میں کمی آ رہی ہے اور دوسری طرف مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مرکوز ٹیکنالوجی کمپنیاں انسانی ملازمتوں کو خودکار نظام سے تبدیل کرنے لگی ہیں۔روئٹرس کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق، امریکی کمپنیوں نے صرف رواں ماہ میں ۲۵؍ہزار سے زائد ملازمتوں میں کمی کا اعلان کیا ہے۔ اس میں یو پی ایس کے۴۸؍ہزار ملازمین کی کٹوتی شامل نہیں، جو ۲۰۲۵ءکے آغاز سے لاگو ہوگی۔ یورپ میں یہ تعداد ۲۰؍ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، جس میں سب سے بڑا حصہ نیسلے کا ہے، جس نے گزشتہ ہفتے ۱۶؍ہزار ملازمین کی کمی کا اعلان کیا تھا۔ چوں کہ امریکہ کی حکومت اپنی تاریخ کے دوسرے طویل ترین شٹ ڈاؤن (تعلقاتِ عامہ کی بندش) سے گزر رہی ہے، اس لیے ملازمتوں میں کمی کے مجموعی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔