Updated: December 26, 2025, 8:58 AM IST
| New Delhi
حکومت نے ۱۰۰؍ میٹر یا اس سے زائد بلندپہاڑیوں کو اراولی رینج میں شمار کیا ہےاور اس تعریف کو سپریم کورٹ نے بھی منظوری دی ہے جب کہ ماہرین اور
کانگریس کا کہناہےکہ اراولی سلسلہ میں۱۰۰؍ میٹریا اس سے زائد اونچی پہاڑیوں کا تناسب بہت کم ہے، اس طرح اراوالی کا ۹۰؍ فیصدحصہ غیر محفوظ ہوسکتا ہے
اراولی پہاڑیوں اوراطراف کے علاقوں میں کان کنی کے خلاف احتجاج کا منظر ۔(فائل فوٹو)
اراولی پہاڑی سلسلہ کی نئی تعریف نے ماحولیاتی کارکنان کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ فکر مندافراد کی حمایت کانگریس بھی بھرپور طریقے سے کر رہی ہے اور پارٹی نے اراولی کی حفاظت کے لیے شروع ہوئی مہم کو مضبوط کر رہی ہے۔واضح رہےکہ اراولی پہاڑی سلسلے کے تحفظ سے متعلق جاری قومی بحث کے درمیان مرکزی حکومت نے ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے پورے اراولی خطے میں نئی کان کنی لیز دینے پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ یہ پابندی دہلی سے گجرات تک ۶۷۰؍ کلومیٹر پر پھیلی اراولی کی پوری جغرافیائی حد پر نافذ ہوگی۔ حکومت کے مطابق اس فیصلے کا مقصد غیرقانونی اور بے قابو کان کنی پر روک لگانا اور اراولی کو ایک مربوط قدرتی خطے کے طور پر محفوظ رکھنا ہے۔مرکزی وزارت ماحولیات کی جانب سے تمام متعلقہ ریاستوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ اراولی کے کسی بھی حصے میں نئی کان کنی کی اجازت نہ دی جائے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اراولی شمالی ہندوستان کے ماحولیاتی توازن کیلئے انتہائی اہم ہے ۔ واضح رہےکہ نومبر۲۰۲۵ء میں سپریم کورٹ نے اراولی پہاڑیوں کی یکساں تعریف کو منظوری دی تھی ۔ اس کے مطابق، کوئی بھی زمینی شکل جو اراولی کے ارد گرد کی زمین سے ۱۰۰؍ میٹر یا اس سے زیادہ بلند ہوگی، اسے اراولی پہاڑی سلسلہ میں شمار کیاجائے گا ۔ ایسی دو یا دو سے زیادہ پہاڑیاں، اگر ایک دوسرے سے۵۰۰؍ میٹر کے فاصلے پر ہوں تو یہ کل علاقہ اراولی پہاڑی سلسلہ میںشامل ہوگا ۔ حکومت کا کہنا ہے ایسی پہاڑیوں یا زمینی علاقوں کے قریب کان کنی کی اجازت نہیںد ی جائے گی جبکہ ماہرین اور اپوزیشن کا کہنا ہےکہ اراولی میں۱۰۰؍یا اس سے بلند پہاڑیوں کا تناسب بہت ہی کم ہے جس سےایسی پہاڑیوں اور اطراف کے علاقے اراوالی رینج سے باہر قرار دئیے جاسکتےہیں۔فی الحال حکومت کا دعویٰ ہےکہ اراولی کے صرف۰ء۱۹؍ فیصد حصہ پر ہی قانونی کان کنی کی جارہی ہے۔
اس درمیان کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ جاری کر فاریسٹ سروے آف انڈیا کے ذریعہ پیش کردہ کچھ ڈیٹا کو سامنے رکھا ہے۔جئے رام رمیش نے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا ’’مودی حکومت کے ذریعہ اراولی کی جو نئی تعریف پیش کی گئی ہے، وہ تمام ماہرین کی رائے کے خلاف ہے۔ ساتھ ہی یہ خطرناک اور تباہ کن بھی ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’فاریسٹ سروے آف انڈیا (ایف ایس آئی) کے مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق۲۰؍ میٹر سے زیادہ اونچائی والی اراولی پہاڑیوں میں سے محض۸ء۷؍ فیصد ہی ۱۰۰؍ میٹر سے زیادہ اونچی ہیں۔ اگر ایف ایس آئی کے ذریعہ نشان زد سبھی اراولی پہاڑیوں کو دیکھا جائے، تو ان میں سے ایک فیصد بھی۱۰۰؍ میٹر سے زیادہ اونچائی والی نہیں ہیں۔‘‘
کانگریس لیڈر نے لکھا ہے کہ ’’ایف ایس آئی کا نظریہ صاف ہے اور وہ پوری طرح مناسب بھی ہے کہ اونچائی کی بنیاد پرپہاڑیوں کی سرحدیں طے کرنا مشتبہ ہے اور اونچائی کی پروا کیے بغیر اراولی کے مکمل پہاڑی سلسلہ کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔‘‘ جئے رام رمیش کا کہنا ہے کہ رقبہ کے حساب سے دیکھا جائے تو مطلب یہی نکلتا ہے کہ نئی تعریف کے تحت اراولی کا۹۰؍ فیصد سے زیادہ حصہ غیر محفوظ ہو جائے گا اور کان کنی، رئیل اسٹیٹ اور دیگر سرگرمیوں کے لیے کھولا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ماحولیات کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔‘‘
’پیپل فار اراولی‘ کی بانی نیلم اہلووالیہ نے بتایا ’’اراولی رینج کے بارے میں۲۰؍ نومبر کو سپریم کورٹ کا فیصلہ ملا جلا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اراولی کے علاقے میں کان کنی کی کوئی نئی لیز اس وقت تک نہیں دی جائے گی جب تک کہ ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت اورانڈین کونسل آف فاریسٹری ریسرچ اینڈ ایجوکیشن (آئی سی ایف آر ای)کے ذریعےمینجمنٹ پلان فور سسٹین ایبل مائننگ(ایم پی ایس ایم)(منظم منصوبہ برائے پائیدارکان کنی) حتمی منظوری نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے تشویش کا اظہار کیا ہےکہ سپریم کورٹ کے ذریعے حکومت کی پیش کردہ جس نئی تعریف کو قبول کیاگیا ہے اس سےاندیشہ ہےکہ ۱۰۰؍ میٹرسے کم اونچائی والی بہت سی پہاڑیو ںکواراوسلسلہ سے باہر سمجھاجائے گااوران پر کان کنی کی اجازت دی جا سکتی ہے۔بتا دیں کہ حکومت نے اپنی ریلیز میں حالانکہ دعویٰ کیا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیںہے ۱۰۰؍ میٹر سے کم اونچائی والی پہاڑیوںاوراطراف میں کان کنی کی اجازت دی جائیگی ۔
اراولی رینج کیوں اہم ہے؟
اراولی پہاڑی سلسلے کو شمال مغربی ہندوستان کا ’پھیپھڑا‘‘ اور ’دیوار‘ سمجھا جاتا ہے۔ یہ صحرائے تھار کو مشرق کی طرف (دہلی اور اتر پردیش کی طرف) پھیلنے سے روکتا ہے۔ یہ زمینی پانی کو ری چارج کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور دہلی-این سی آر کوریت کے طوفان سے بچاتا ہے۔ اگر اراولی سلسلہ ختم ہو جاتا ہے تو دہلی اور آس پاس کا علاقہ صحرا میں تبدیل ہو سکتا ہے۔