Inquilab Logo

اومیکرون کے تعلق سےلاپروئی نہ برتیں یہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے: ماہرین کی رائے

Updated: January 08, 2022, 11:52 AM IST | Agency | Washington

مختلف تجربات سے یہ واضح ہوا ہے کہ اومیکرون ڈیلٹا کے مقابلے کم نقصاندہ ہے لیکن اس میںتیزی سے پھیلنے کا مادہ ہے جو لاپروائی کی صورت میں مہلک ثابت ہو سکتا ہے

There is no need to be afraid of Omicron but caution is required.Picture:INN
اومیکرون کے تعلق سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن احتیاط لازمی ہے۔ تصویر: آئی این این

اومیکرون پر کی گئی نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ کورونا کی یہ نئی جینیاتی قسم پھیپھڑوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتی جتنا ڈیلٹا ویرینٹ نے پہنچایا تھا۔اس کے علاوہ اومیکرون کے باعث اسپتال میں علاج کیلئے داخل ہونے والوں میں ایسے افراد کی تعداد کم ہے جنہیں  ویکسین لگ چکی ہے۔ اسی طرح ویکسین شدہ افراد میں اموات کی تعداد بھی اس سے پہلے کی جینیاتی اقسام کے مقابلے میں کم ہے۔ لیکن اسی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اومیکرون امریکہ میں اب بھی روزانہ اوسطاً ۱۲۰۰؍ افراد کی جان لے رہا ہے۔ یہ تعداد گزشتہ سال جولائی اور اگست کے دوران کورونا کی دوسری لہر کے عروج کے دنوں کے مساوی ہے۔یونیورسٹی آف گلاسگو کے سینٹر فار وائرس ریسرچ کے ایک سینئر لیکچرر جو گروو کہتے ہیں کہ، "اومیکرون، ڈیلٹا کے مقابلے میں کم خطرناک ہے۔ ڈیلٹا بہت مہلک تھا۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ یہ ویرینٹ نزلے زکام جیسا ہے۔ یہ اب بھی ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں ہمیں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔ ان کے علاوہ دیگر ماہرین بھی یہ انتباہ کرتے ہیں کہ اومیکرون بہت تیزی سے پھیلنے والی وبا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وائرس کم خطرناک ہونے کے باوجود بہت نقصان پہنچا سکتا ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کو جو عمر رسیدہ ہیں یا جنہیں پہلے سے ہی طبی مسائل کا سامنا ہے۔
اومیکرون  پھیپھڑوں کو زیادہ متاثر نہیں کرتا
  نئی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اومیکرون پھیپھڑوں کو اتنا زیادہ متاثر نہیں کرتا جتنا کہ کوروناکی اس سے پہلے والی  اقسام پہنچاتی تھیں۔ اومیکرون سے متاترہ مریضوں کے پھیپھڑوں میں زیادہ سوزش نہیں دیکھی گئی۔تاہم اومیکرون ناک اور گلے کو آسانی سے متاثر کرتا ہے۔ گروو کہتے ہیں کہ ناک اور گلے کو اپنی لپیٹ میں لینے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اومیکرون کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ کیا ہے، کیونکہ جب سانس خارج ہوتی ہے تو اس کے ساتھ وائرس بھی آس پاس کی فضا میں پھیل جاتا ہے۔گرو و کہتے ہیں کہ، ’’کیونکہ اس کی وجہ سے زیادہ کھانسی یا چھینک آتی ہیں، اس لئے یہ زیادہ آسانی سے پھیل سکتا ہے۔ تاہم، یہ میرا قیاس ہے۔‘‘ واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن میں وبائی امراض کے پروفیسر ڈاکٹر مائیک ڈائمنڈ کا کہنا ہے کہ لیباریٹری کے نتائج امید افزا ہیں، لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جانوروں پر تجربات کے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں، ضروری نہیں کہ انسانوں سے بھی ویسے ہی نتائج نکلیں۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اومیکرون کم شدت کا وائرس ہے۔ ممکن ہے کہ یہ ٹھیک ہو، لیکن ہم ابھی تک پوری طرح نہیں جانتےکہ انسانوں میں اس کی شدت کم ہے۔جنوبی افریقہ میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ملک میں وائرس کی مختلف اقسام کے مقابلے میں اومیکرون میں مبتلا ہونے والے مریضوں میں علامات شدید نہیں تھیں۔برطانیہ میں صحت کے حکام کا بھی یہی مشاہدہ ہے۔لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ مرض کی شدت کم ہونے کی وجہ وائرس کا ہلکا ہونا ہے یا یہ کہ لوگوں میں اس کے مقابلے کی قوت بہتر ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK