Updated: December 15, 2022, 1:50 PM IST
| Kinshasa
بیشترہلاکتیں مکانات میں پانی بھرنے اور چٹانوں کے کھسکنے کے سبب ہوئیں۔ ۵۰؍ سے زائد افراد زخمی، اور ۱۴؍ افراد لاپتہ۔ ایک لاکھ سے زائد افراد کے بے گھر ہونے کا خدشہ۔ حکومت کی جانب سے ۳؍ دنوں کے سوگ کا اعلان۔ کانگو کے صدر نے اس صورتحال کیلئے موسمیاتی تبدیل کو ذمہ دار قرار دیا
کانگو کے باشندے محفوظ مقامات کی طرف کوچ کرتے ہوئے ( تصویر: ایجنسی)
افریقی ملک کانگو اس وقت سیلاب کی زد میں ہے جس کی وجہ سے وہاں تباہی مچی ہوئی ہے۔ اطلاع کے مطابق مسلسل ہونے والی بارش کے نتیجے میں کانگو کے کئی گائوں ایک ساتھ تباہ ہو گئے ہیں۔مکانات بہہ گئے ہیں اور درخت اکھڑ گئے ہیں۔ اب تک ۱۴۱؍ افراد کی ہلاکت کی خبر ہے جبکہ ۵۰؍ کے آس پاس لوگ زخمی ہیں۔
ایک عالمی نیوز ایجنسی کے مطابق افریقی ملک کانگو میں مسلسل بارش ہو رہی ہے جس کی وجہ سے کئی علاقوں میں پانی بھر گیا ہے ۔ اس کی وجہ سے بیشتر علاقوں میں سیلابی کیفیت ہے۔ دار الحکومت کنشاسا بھی اس سے بچ نہیں سکا۔ کہا جا رہا ہے کہ سیلابی ریلہ دارالحکومت کے رہائشی علاقوں میں داخل ہوگیا ہے۔ یہ سیلابی ریلہ اتنا زور دار ہے کہ اس نے اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے ۔ اس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی اور مالی دونوں نقصانات ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق زیادہ تر جانی اور مالی نقصان نشیبی علاقوں میں ہوا ہے جہاں سیلابی ریلے سے ایک ہزار کے قریب گھر تباہ ہو گئے جب کہ کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ اب تک ۱۴۱؍ افراد کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے لیکن امدادی کاموں کے دوران اب بھی لاشوں کےملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ خدشہ ظا ہر کیا جا رہا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔مسلسل بارش کے باعث مختلف علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ( چٹان کھسکنے) کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں، بلکہ زیادہ تر اموات پہاڑی علاقوں ہی میں ہوئی ہیں جہاں چٹان کے تودے گرے ہیں۔
بی بی سی کی ایک رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ مکانات میں نہ صرف پانی گھس آیا ہے بلکہ اس کے ساتھ مٹی اور کیچڑ بھی شامل ہے۔ اس کی وجہ سے گھروں میں چیزیں منجمد ہو گئی ہیں ۔ یعنی آنے جانے کا راستہ بھی نہیں ہے۔ کینگا مائوبا نامی ایک شخص نے اپنی درد ناک روداد سنائی کہ ’’ میرے گھر میں داخل ہونےکا راستہ بھی نہیں بچا۔ میں صرف اپنے ایک بچے کو بچا سکا۔‘‘ انہوں نے بتایا’’ میری بیوی کی لاش میری آنکھوں کے سامنے تیر رہی تھی جبکہ میرے دو بچے کیچڑ میں دبے ہوئے تھے۔ دونوں پہلے ہی فوت ہو چکے تھے۔‘‘ مائوبا کے مطابق’’ بارش رکنے کے بعد پڑوسیوں نے آکر لاشوں کو نکالنے میں میری مدد کی۔‘‘
اے ایف پی کے ایک رپورٹر نے بتایا کہ اس نے اپنی آنکھوں سے ایک ہی خاندان کے ۹؍ افراد کی لاشیں دیکھیں جن موت ان کا مکان گر جانے کی وجہ سے ہوئی تھی۔‘‘ تباہ شدہ علاقوں میں سے ایک میں رہنے والے بلین چارڈ موبو نے بتایا کہ ’’ میں نے اپنی زندگی میں اتنا تباہ کن سیلاب کبھی نہیں دیکھا تھا۔‘‘ موبو کا کہنا ہے کہ ’’ میں سو رہا تھا جب مجھے احساس ہوا کہ گھر میں پانی بھر گیا ہے۔ یہ ایک تباہی تھی۔ ہم نے اپنے گھر کی ہر ایک چیز کھودی۔ کچھ بھی نہیں بچا پائے۔‘‘
بڑے پیمانے پر تباہی
اس دوران کانگو کے کئی ہائی وے ٹوٹ کر سیلابی ریلے میں بہہ گئے اور یہاں کی گلیاں کیچڑ والے پانی میں ڈوب گئیں۔ وزارت صحت کے مطابق امدادی کاموں کے درمیان ۱۴۱؍لاشیں برآمد ہوئی ہیں جبکہ ۵۰؍ سے زائد زخمی ہیں اور ۱۴؍ افراد لاپتہ ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے۔دارالحکومت کا بندرگاہ سے رابطہ کٹ گیا۔ سڑکیں آمد و رفت کیلئے بند کردی گئیں۔ دارا لحکومت کو صاف کرنے میں ۴؍ دن لگ سکتے ہیں تب تک معمولات زندگی معطل رہیں گے۔
تین دن کے سوگ کا اعلان
وزیر اعظم جین مائیکل ساما کی قیادت میں سرکاری حکام میٹنگ کر رہے ہیں تاکہ اب تک ہوئی تباہی کا تخمینہ لگا سکیں ۔ تاریخ کے اپنی نوعیت کے ہلاکت خیز سیلاب میں قیمتی جانوں کے نقصان پر ملک بھر میں تین دن سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ بزرگ شہریوں نے عالمی میڈیا کے نمائندے سے گفتگو میں بتایا کہ اپنی زندگی میں ایسی بارش اور سیلاب نہیں دیکھا۔ یاد رہے کہ کانگو میں سیلاب منگل کے روز شروع ہوا اور اسی دن صبح کانگو کے صدر فیلکس شکیدی امریکہ کے ساتھ مل کر موسمیا تی تبدیلی کے تعلق سے میٹنگ کر رہے تھے۔ ان کے ترجمان نے بتایا کہ ’’ اس بات کی شکایت ہم کئی دنوں سے کر رہے تھے۔ وہ ممالک جو موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن رہے ہیں انہیں ان ممالک کی مدد کرنی چاہئے جو اس تبدیلی کا شکار ہو رہے ہیں۔ خبر لکھے جانے تک کانگو میں ہلکی ہلکی بارش کا سلسلہ جاری تھا۔ حالانکہ حالات اب قابو میں ہیں۔ امدادی کام تندہی کے ساتھ جاری ہے۔ فی الحال باز آبادکاری سب سے بڑا مسئلہ ہے۔