Inquilab Logo

بنگلورو کا سیلاب

Updated: September 07, 2022, 9:57 AM IST | Mumbai

کرناٹک کے شہر بنگلورو کے سیلاب پر ریاست کے وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ اس کیلئے ناقص انفراسٹرکچر ذمہ دار ہے اور ناقص انفراسٹرکچر کیلئے سابقہ کانگریس حکومت ذمہ دار۔

bengaluru floods
بنگلورو کا سیلاب

کرناٹک کے شہر بنگلورو کے سیلاب پر ریاست کے وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ اس کیلئے ناقص انفراسٹرکچر ذمہ دار ہے اور ناقص انفراسٹرکچر کیلئے سابقہ کانگریس حکومت ذمہ دار۔ سیلاب کا ڈھیٹ پانی اس بیان کے باوجود ٹھہرا رہا۔ اس میں سیاسی حمیت نام ہوتی تو بہہ کر ریاست کی سرحد سے باہر نکل جاتا کہ جب موجودہ حکومت ذمہ دار نہیں ہے تو کیوں ٹھہرا رہے، اُتر کیوں نہ جائے اور عوام کی پریشانی کا باعث کیوں بنے؟ اہل اقتدار کی یہی بہانے بازی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کرتی ہے۔ وہ شہر جو عالمی سطح پر مشہور ہو، اگر زیر آب آجائے تو بجائے اس کے کہ راحتی اقدامات پر فوری توجہ دی جائے، ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو فعال کیا جائے اور کم سے کم وقت میں عوام کو زیادہ سے زیادہ راحت دی جائے، اہل اقتدار فوری طور پر کوئی بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ انہیں، موجودہ دور کے مسائل کیلئے سابقہ حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرانے سے زیادہ اچھا بہانہ سوجھتا ہی نہیں ہے۔ کیا وجہ ہے کہ یہ کوئی دور کی کوڑی نہیں لے آتے؟ وہ کوئی اور بات بھی تو کہہ سکتے تھے جیسی کہ حال ہی میں کہی گئی کہ ویر ساورکر جیل میں تھے تو ایک بلبل اُنہیں روزانہ اپنے پروں پر بٹھا کر جیل کے باہر لے جاتی اور ماتر بھومی کی سیر کروا نے کے بعد واپس جیل پہنچا دیا کرتی تھی۔ ایسے عذر بے مصرف نہیں ہوتے۔ ہنسنے کا موقع تو مل ہی جاتا ہے۔ حد ہے کہ وزیر اعلیٰ بومئی کو ایسا بھی کوئی بہانہ نہیں سوجھا؟ 
 اس مرتبہ بنگلورو میں اوسط سے کہیں زیادہ بارش ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے سیلابی کیفیت فطری تھی مگر چونکہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا اور صرف بنگلورو میں نہیں ہوا اس لئے وزیر اعلیٰ بومئی کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔ جب بھی کسی ریاست میں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوتا ہے تو وہ اُس ریاست ہی کیلئے نہیں دیگر ریاستوں کیلئے بھی ایک قسم کا انتباہ ہوتا ہے۔ وہ اُنہیں خبردار کرنے کیلئے بھی ہوتا ہے۔ اُنہیں، ذمہ دار اور متعلقہ افسران کی بلاتاخیر میٹنگ طلب کرکے ضروری ہدایات دینی چاہئے تاکہ ویسا ہی کوئی واقعہ اُن کی ریاستوں میں رونما ہو تو اس سے نمٹنے کے تمام تر انتظامات کی پہلے سے تیاری ہو۔ حکومت کرناٹک نے ہریانہ کے گروگرام کی سیلابی کیفیت سے سبق لیا ہوتا تو ممکن تھا کہ بارش کے ابتدائی دنوں ہی میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو الرٹ رکھا جاتا اور سیلابی پانی کی نکاسی کے راستوں کی مکمل جانچ کرلی جاتی۔ 
 سچ پوچھئے تو یہ ہوتا ہی نہیں ہے۔ اس بے عملی اور لاپروائی کیلئے کوئی کسی کو اور ذمہ دار ٹھہرائے تو اسے اعتراف ِ جرم پر محمول کیا جانا چاہئے۔ دراصل، سیلاب کے جتنے نقصانات دکھائی دیتے ہیں اُن سے زیادہ ایسے ہوتے ہیں جو دکھائی نہیں دیتے یا شمار نہیں کئے جاتے۔ مثال کے طور پر سیلاب تب تک ہی پریشان نہیں کرتا جب تک اس کا پانی ٹھہرا رہتا ہے۔ سیلاب پانی اُترنے کے بعد بھی بے شمار مسائل عوام کیلئے چھوڑ جاتا ہے جن میں خطرناک بیماریاں بھی ہیں۔ اتنا ہی نہیں، اس سے شہروں کی بدنامی ہوتی ہے اور سرمایہ کارپیچھے ہٹتے ہیں۔ ممبئی، کولکاتا، دہلی، حیدر آباد، بنگلورو اور گروگرام جیسے شہر سرمایہ کاروں کی نگاہوں کا مرکز ہیں۔ وہ یہاں کی تمام تر کیفیات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں کیونکہ معاملہ تجارتی و صنعتی مفادات کا ہوتا ہے۔ یہ لوگ جس طرح شہروں کے امن و سکون کو اہمیت دیتے ہیں اسی طرح موسمی تغیرات سے نمٹنے کی صلاحیت کو بھی آنکتے ہیں۔ اس لئے بومئی صاحب کو اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہئے نہ کہ سابقہ حکومتوں کو کوسنا چاہئے ۔  n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK