Inquilab Logo Happiest Places to Work

فرانس میں حکومت سازی کیلئے رسہ کشی تیز، بایاں محاذ سرگرم

Updated: July 11, 2024, 12:05 PM IST | Paris

گیبرئیل اتال کو وزیراعظم کے عہدہ پر برقراررکھنے پر برہمی کااظہار کیا، متنبہ کیا کہ یہ عوامی فیصلے کے منافی ہے،جان لاك ميلونشون وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں سب سے آگے۔

Leaders of the left expressing happiness at the results of France. Photo: INN
فرانس کےنتائج پر بائیں بازو کے لیڈر خوشی کااظہار کرتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این

 فرانس میں اتوار کو جاری کئے گئے انتخابی نتائج  کے بعد بے یقینی کی صورتحال بدھ  کو بھی برقرار رہی۔ ۵۷۷؍ رکنی قومی اسمبلی (فرانس کی پارلیمنٹ) میں  حالانکہ کسی بھی پارٹی یا محاذ کو واضح اکثریت نہیں ملی تاہم  سب سے زیادہ سیٹیں  جیتنے کے بعد بایاں محاذ حکومت سازی کیلئے سرگرم ہوگیا ہے۔  بائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیوں  کے اتحاد ’’نیو پاپولر فرنٹ‘‘  (این پی ایف) نےوزارت عظمیٰ کیلئے امیدوار کے انتخاب کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ اس نے صدرایمانوئل میکرون  کے رخصت پزیر وزیراعظم گیبرئیل اتال  کے استعفیٰ کو قبول نہ کرنے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے  الیکشن میں عوامی فیصلے کے منافی قرار دیا ہے۔ 
حکومت سازی کا حق فوری طور پر دینے کا مطالبہ
فرانس کی ۵۷۷؍رکنی قومی اسمبلی میں حکومت سازی کیلئے  ۲۸۹؍ سیٹیں درکار ہیں۔ ۷؍ جولائی کے نتائج کے بعد مجموعی طور پر ۳؍ محاذ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ بائیں بازو کی پارٹیوں کے اتحاد ’این  پی ایف ‘ نے ۱۸۲؍نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ صدر میکرون کی  رینیسانس پارٹی کو ۱۶۲؍ سیٹیں ملی ہیں۔  بنیاد پرست دائیں بازو کی پارٹیوں  کے اتحاد کے حصے میں  ۱۴۳؍ سیٹیں آئی ہیں۔ حالانکہ قومی اسمبلی معلق ہے اور کوئی بھی محاذ ’’۲۸۹‘‘کے جادوئی ہندسے تک نہیں  پہنچ سکاہے مگر بایاں محاذ  چونکہ ۱۸۲؍ سیٹوں  کے ساتھ سب سے بڑا محاذ  بن کر ابھر اہے اس لئے حکومت سازی کیلئے پُر عزم ہے۔  اس نے صدر میکرون سے حکومت سازی کا حق فوری طور  پر دینےکا مطالبہ کیا ہے۔ 
فرانس میں سیاسی تعطل کا خطرہ 
فرانس کی جدید میںایسے انتخابی نتائج کی مثال نہیں ملتی جس میں قومی اسمبلی میں کسی کو بھی اکثریت نہ ملی ہو۔ اتوار کے نتائج نے یورپی یونین کی اس دوسری سب سے بڑی معیشت میں  سیاسی تعطل کا خطرہ پیدا کردیا ہے۔ قومی اسمبلی ۳؍ خیموں  میں تقسیم ہوچکی ہے جس نے ملک میں مستحکم حکومت  کے قیام کی تمام راہیںمسدود کردی ہیں۔  ایک طرف جہاں  بایاں  محاذ حکومت سازی کیلئے نو منتخب قانون سازوں کو اپنی طرف راغب کرکے اپنی تعداد بڑھانے کیلئے کوشاں ہے وہیں صدر میکرون کی پارٹی بھی  نومنتخب اراکین کو اپنے خیمے میں شامل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ میکرون کی پارٹی کے لیڈر ارور برگے نے خبررساں ایجنسی ’’رائٹرز‘‘ سے گفتگو کے دوران   این پی ایف کو حکومت نہ بنانے دینے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ نیو پاپولر فرنٹ کا متبادل موجود ہے۔‘‘ ’’فرانس -۲‘‘ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں  نے کہا ہے کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ فرانس کے عوام این پی ایف کی حکومت  نہیں چاہتے۔وہ نہیں چاہتے کہ ان پر نافذ کئے گئے ٹیکس میں اضافہ ہو۔‘‘  اہم بات یہ ہے کہ تیسرا محاذ دائیں  بازوں کی بنیاد پرست نظریات کی حامل پارٹیوں کا ہے۔ ارور برگے  نے ان سے ہاتھ ملانے کے امکانات کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ا س (حکومت سازی کیلئے) بنیاد پرست ریپبلکن کو معاہدہ میں شامل کیا جاسکتاہے۔  ’رائٹرز‘ نے اپنے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ نومنتخب اراکین  کے فون کی گھنٹیاں مسلسل بج رہی ہیں اورانہیں  وفاداریاں بدلنے کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بائیں محاذ کیلئے حکومت سازی آسان نہیں
بایاں محاذ چونکہ بائیں بازو کے نظریات کی حامل مختلف  پارٹیوں کا اتحاد  ہے اس لئے اس کیلئے حکومت سازی آسان نہیں ہے۔ اول تو اسے ایوان میں اکثریت کے ہندسے تک پہنچنے کیلئے نئے اراکین کی حمایت درکارہے ، دوم وہ خود خبر لکھے جانے تک  وزارت عظمیٰ کیلئے کسی نام پر متفق ہوسکے ہیں  نہ کابینہ کےممکنہ اراکین پر اتفاق رائے قائم ہوسکی ہے۔ اس بیچ  دائیں بازو کے ۷۲؍ سالہ لیڈر جان لاک میلونشون کا نام وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں سب سے آگے نظر آرہا ہے۔ انہیں  اسرائیل مخالف کے طورپر دیکھا جاتاہے۔ فرانس کا یہودی سماج ان پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ اسرائیل مخالف اور یہود دشمن ہیں جو حماس تنظیم کی مذمت کرنے کے مطالبے کو ٹھکراتے  اور اسرائیل پر اجتماعی نسل کشی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK