Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ میں شہیدوں کی تعداد ۵۴؍ ہزار کا ہندسہ پار کرگئی

Updated: May 27, 2025, 1:44 PM IST | Agency | Gaza

صہیونی حکومت کے مظالم کے آگے عالمی برادری کی بے بسی کا ایک اور شرمناک سنگ میل، اسکول پرحملے میں ۳۶؍ شہید، متعدد بچے شامل، کئی لاشیں بری طرح  جھلس گئیں۔

Rescue workers transport the injured to hospital after the Israeli attack. Photo: INN
اسرائیلی حملے کےبعد بچاؤ کارکن زخمیوں کو اسپتال منتقل کرتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این

 غزہ میں اسرائیلی حکومت کے مظالم کے آگے عالمی برادری کی بے بسی نے پیر کو اُس وقت ایک اور شرمناک سنگ میل پار کرلیا جب ایک اسکول پر انتہائی وحشیانہ حملہ میں ۳۶؍ اموات کے ساتھ ہی اسرائیلی حملوں میں جام شہادت نوش کرنےوالوں  کی تعداد ۵۴؍ ہزار سے تجاوز کر گئی۔ یورپی یونین کے مطالبوں، برطانیہ، فرانس اور کنیڈا کی دھمکیوں اور امریکہ کے انتباہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تل ابیب غزہ میں بغیر کسی روک ٹوک پوری آزادی کے ساتھ بے قصور شہریوں اور معصوم بچوں  کے قتل میں  مصروف ہے۔ پورے غزہ پر قبضہ کے اعلان کو بھی حقیقت میں  بدلتے ہوئے تل ابیب غزہ کے جغرافیائی علاقے کے ۷۷؍ فیصد سے زائد علاقے پرقابض ہوچکاہے۔ 
اسکول پر حملہ، متعدد افراد زندہ جل گئے
  پیر کی صبح اسرائیلی بم باری میں غزہ شہر میں  واقع ایک سکول کو نشانہ بنایا گیا جو بے گھر افراد کیلئے پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔ اس حملے میں  خبر کے لکھے جانے تک ۳۶؍ افراد کے جاں  بحق ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ مقامی محکمہ صحت نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ اس اسرائیلی حملے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں ۔ طبی عملے کے مطابق حملہ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہوا، جس کے نتیجے میں غزہ شہر کے الدرج محلے میں واقع اسکول اور اس کے احاطے میں نصب خیموں میں آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں  کئی مظلوم زندہ جل گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق کئی لاشیں جھلس گئیں اور بعض کے اعضا الگ ہو گئے۔ 
شہیدوں میں بچے اور خواتین شامل
  شہری دفاع کے ترجمان محمود بصل نے بتایا کہ امدادی ٹیموں نے بچوں اور خواتین سمیت۳۶؍ افراد کی جھلسی ہوئی لاشیں نکالیں جبکہ بہت سے زخمی شدید جھلسی ہوئی حالت میں ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ کئی افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں ، اور شدید تباہی کے باعث امدادی کارروائیاں بہت مشکل ہو گئی ہیں ۔ نیم طبی عملے سے وابستہ ایک اہلکار بتایا کہ ’’ایک ایمبولینس نے۱۲؍ افراد کی لاشوں کے ٹکڑوں پر مشتمل چار بیگ منتقل کئے ہیں  جس سے حملے کی شدت اور درندگی کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس سانحہ نے سوشل میڈیا پر شدید غم و غصے کو جنم دیا۔ صارفین نے اسے ’’خون ریز قتل عام‘‘ قرار دیا۔ 
حملے کے بعد خوفناک منظر
  عینی شاہدین نے حملے کے بعد کی صورتحال کو بیان کرتے ہوئے اسے’’خوف ناک منظر‘‘ قرار دیا۔ ان کے مطابق زور دار دھماکے نے اسکول اور اس کے ارد گرد کے علاقے کو لرزا دیا، لاشیں فضا میں بکھر گئیں اور لوگ چیختے چلاتے نظر آئے۔ خالد سلیمان، جو اسکول کے قریب ہی رہتے ہیں ، نے بتایا ’’ہم ایک زوردار دھماکے سے جاگے، پورا علاقہ لرز گیا، ہر طرف آگ اور تباہی تھی، جھلسے ہوئے جسم ہر جانب بکھرے پڑےتھے۔ ’’انھوں نے اس حملے کو ’’زلزلے جیسا‘‘ قرار دیا۔ غزہ شہر کے المعمدانی اسپتال میں زخمیوں کی بڑی تعداد پہنچی ہے مگرڈاکٹروں نے دواؤں اور طبی سامان کی شدید قلت کی شکایت کی۔ 
دیگر علاقوں  پر بھی حملے، ۵۰؍ سے زائد جاں بحق
  غزہ کے مشرقی علاقوں الشجاعیہ اور التفاح پر شدید فضائی حملے کئے گئے۔ غزہ شہر کے وسط میں ایک چوراہے کے قریب ایک زیر تعمیر عمارت پر بم باری کی گئی، جس کا ملبہ قریبی خیمہ بستی پر گرنے سے مزید ہلاکتیں اور زخمی ہوئے۔ صحافیوں اور کارکنوں کی جانب سے شیئر کئے گئے وڈیوز میں جھلسی ہوئی لاشوں کے دل دہلا دینے والے مناظر دیکھے گئے۔ 
حماس کے نام پر عام شہریوں  کا قتل
 اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے غزہ شہر میں جس اسکول کو نشانہ بنایا، وہاں ’’حماس اور جہاد اسلامی کے سینئر دہشت گرد‘‘موجود تھے اور یہ ایک کمانڈ سینٹر کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔ تاہم اس بیان میں واقعے کی سنگینی یا شہری ہلاکتوں پر کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔ ادھر اسرائیلی کارروائیوں میں غزہ کے الزيتون اور الشجاعیہ کے محلے، اور شمالی بیت لاہیا میں بھی شدید دھماکے اور فضائی حملے جاری ہیں ، جن سے مزید گھروں کو نقصان پہنچا۔ 
جنوبی غزہ میں  لوگوں  کو علاقہ خالی کرنے کا حکم
  اس بیچ اسرائیلی فوج نے خان یونس، بنی سہیلہ، عباسان اور القرارہ علاقوں  کو خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔ فوج کے ترجمان کی جانب سے ایکس پر جاری کئے گئے بیان میں   کہاگیا ہے کہ د’’ہشت گردوں ‘‘کی صلاحیتوں  کو تباہ کرنے کیلئے غیر معمولی حملہ کیا جارہاہےاس لئے شہریوں  کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ المواسی علاقے کو خالی کردیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK