• Sun, 28 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کیلئے انتہائی ضروری

Updated: September 27, 2025, 3:30 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

یہ کوئی نظریہ نہیں بلکہ یہ امن، ترقی، اور انسانی حقوق کی بنیاد ہے۔ اب صنفی مساوات کیلئے فیصلہ کن اقدام کا وقت آ پہنچا ہے کہ یا تو خواتین اور لڑکیوں پر سرمایہ کاری کی جائے یا پھر ایک اور نسل ترقی سے محروم رہ جائیگی۔

According to statistics, 65 percent of women are connected to the internet today. Photo: INN
اعداد و شمار کے مطابق آج ۶۵؍فیصد خواتین انٹرنیٹ سے جڑی ہوئی ہیں۔ تصویر: آئی این این

اقوام متحدہ کے شعبہ معاشی و سماجی امور اور خواتین کیلئے ادارے ’’یو این ویمن‘‘  کی جانب سے پائیدار ترقی کے اہداف سے متعلق شائع کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت صنفی مساوات کے بارے میں کسی بھی ہدف کا حصول ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین میں غربت کی شرح گزشتہ پانچ برس میں تقریباً ۱۰؍فیصد پر ہی برقرار ہے۔ اس غربت سے سب سے زیادہ متاثرہ خواتین ذیلی صحارا افریقہ اور وسطی و جنوبی ایشیا میں رہتی ہیں۔
 گزشتہ سال  تک ۶۷؍کروڑ ۶۰؍ لاکھ خواتین اور بچیاں ایسے علاقوں میں یا ان کے قریب رہتی تھیں جو مہلک تنازعات کی زد میں تھے۔ یہ ۱۹۹۰ء  کی دہائی کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔ جنگ زدہ علاقوں میں پھنس جانے والی خواتین کے لئے صرف بے گھر ہونا ہی مسئلہ نہیں بلکہ ان کے لیے خوراک کی قلت، طبی خطرات اور تشدد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔
بہتری کی مثال:لیکن، مایوس کن اعداد و شمار کے باوجود، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب حکومتیں صنفی مساوات کو ترجیح دیتی ہیں تو کیا کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۰ء سے  اب تک زچگی کے دوران اموات میں تقریباً ۴۰؍فیصد کمی آئی ہے اور لڑکیوں کے لئے اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے امکانات پہلے سے کہیں بڑھ گئے ہیں۔یو این ویمن میں پالیسی ڈویژن کی ڈائریکٹر سارہ ہینڈرکس نے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب وہ ۱۹۹۷ء  میں زمبابوے منتقل ہوئیں تو وہاں بچے کی پیدائش زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتی تھی۔ تاہم، آج وہاں یہ صورتحال نہیں رہی اور یہ ۲۵؍ یا ۳۰؍ سال کے عرصے میں ہونے والی شاندار پیش رفت ہے۔
صنفی ڈیجیٹل تقسیم:صنفی مساوات کے معاملے میں جدید ٹیکنالوجی نے بھی امید کی کرن دکھائی ہے۔آج ۷۰؍ فیصد مرد انٹرنیٹ سے جڑے ہیں جبکہ خواتین کی شرح ۶۵؍ فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اگر یہ ڈیجیٹل فرق ختم کر دیا جائے تو ۲۰۵۰ء تک مزید۳۴؍ کروڑ ۳۵؍لاکھ خواتین اور بچیاں انٹرنیٹ سے مستفید ہو سکتی ہیں اور۳؍کروڑ خواتین کو غربت سے نکالا جا سکتا ہے۔ 
 یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث کا کہنا ہے کہ جہاں صنفی مساوات کو ترجیح دی جاتی ہے وہاں معاشرے اور معیشتیں ترقی کرتے ہیں۔ صنفی مساوات پر کی جانے والی مخصوص سرمایہ کاری سے معاشروں اور معیشتوں میں تبدیلی آتی ہے۔ تاہم، خواتین کے حقوق کی مخالفت، شہری آزادیوں کو محدود کیے جانے اور صنفی مساوات کے منصوبوں کے لیے مالی وسائل کی کمی نے برسوں کی محنت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
معلومات میں کمی کا مسئلہ:یو این ویمن کے مطابق، اگر فوری اقدامات نہ کئئے گئے تو خواتین پالیسی سازی اور ڈیٹا میں نظروں سے اوجھل رہیں گی کیونکہ جائزوں کے لئے مہیا کئے جانے والے مالی وسائل میں کمی کے باعث اب صنفی امور پر دستیاب معلومات  میں ۲۵؍ فیصد کمی آ گئی ہے۔اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے اقتصادی و سماجی امور لی جن ہوا نے کہا ہے کہ اگر نگہداشت، تعلیم، ماحول دوست معیشت، افرادی قوت کی منڈی اور سماجی تحفظ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تیز رفتار اقدامات کئے جائیں تو ۲۰۵۰ء  تک شدید غربت میں مبتلا خواتین اور بچیوں کی تعداد میں ۱۱؍ کروڑ کی کمی ممکن ہے۔
امن، ترقی اور حقوق کی بنیاد:تاہم اس حوالے سے موجودہ پیش رفت غیر متوازن اور تکلیف دہ حد تک سست ہے۔ دنیا بھر میں خواتین کے پاس صرف ۲۷ء۲؍فیصد پارلیمانی نشستیں ہیں جبکہ مقامی حکومتوں میں ان کی نمائندگی ۳۵ء۵؍  فیصد پر آ کر تھم گئی ہے۔ انتظامی عہدوں میں خواتین کا حصہ صرف ۳۰؍فیصد ہے اور موجودہ رفتار سے دیکھا جائے تو حقیقی مساوات حاصل کرنے میں تقریباً ایک صدی لگ سکتی ہے۔
 رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنفی مساوات کوئی نظریہ نہیں بلکہ یہ امن، ترقی، اور انسانی حقوق کی بنیاد ہے۔  اب صنفی مساوات کے لئے فیصلہ کن اقدام کا وقت آ پہنچا ہے۔ اب یا تو خواتین اور لڑکیوں پر سرمایہ کاری کی جائے گی یا ایک اور نسل ترقی سے محروم رہ جائے گی۔(یو این خبرنامہ)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK