Inquilab Logo

باتیں کرنا آسان ہےلیکن جب ہم چیف جسٹس کی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو مشکل ہوتی ہے:رنجن گوگوئی

Updated: February 13, 2021, 11:06 AM IST | Agency | New Delhi

سابق چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کو جب ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد راجیہ سبھا کی سیٹ ملی تھی، تو خوب ہنگامہ ہوا تھا۔ ان پر طرح طرح کے الزامات تو عائد کئے ہی گئے تھے، ساتھ ہی اپوزیشن پارٹیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدلیہ اور سیاست کا یہ میل ملک کیلئے نقصاندہ ہے۔

Ranjan Gogoi - Pic : INN
رنجن گوگوئی ۔ تصویر : آئی این این

سابق چیف جسٹس  آف انڈیا رنجن گوگوئی کو جب ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد  راجیہ سبھا کی سیٹ ملی تھی، تو خوب ہنگامہ ہوا تھا۔ ان پر طرح طرح کے الزامات تو عائد کئے ہی  گئے تھے، ساتھ ہی اپوزیشن پارٹیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدلیہ اور سیاست کا یہ میل ملک کیلئے نقصاندہ ہے۔ رنجن گوگوئی پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ انھیں راجیہ سبھا سیٹ ایودھیا اور رافیل سے متعلق فیصلے( حکومت کے حق میں) سنانے  پر انعام  کے طور پر ملی ہے۔ گزشتہ دنوں یہ معاملہ پھر سرخیوں میں آیا جب پارلیمنٹ میں شرومنی اکالی دل کی رکن  ہر سمرت کور نے رنجن گوگوئی کا نام لئے بغیر انہیں راجیہ سبھا کی سیٹ دیئے جانے کا تذکرہ کیا تھا۔ لیکن اب  رنجن گوگوئی نے اس تعلق سے پہلی بار  اپنی خاموشی توڑی  ہے  اور اس طرح کے تمام الزامات کو پوری طرح سے مسترد کر دیا ہے۔
 انگریزی چینل ’انڈیا ٹوڈے‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے رام مندر، رافیل معاہدہ جیسے معاملات  سمیت اپنے چیف جسٹس رہتے ہوئے کئے گئے فیصلوں پر کھل کر بات کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں نے سوچا تھا راجیہ سبھا جا کر کچھ تعمیری کام کروں گا۔‘‘ ریٹائرمنٹ کے ایک سال کے اندر مودی حکومت کی جانب سے راجیہ سبھا بھیجے جانے پر گوگوئی نے کہا کہ ’’مجھے اس بات کی پروا نہیں ہے کہ مجھے کس پارٹی نے بھیجا ہے۔ میرے پاس کوئی انتخابی حلقہ نہیں ہے، پورا ملک میرے لئے انتخابی حلقہ ہے۔‘‘
 ایودھیا اراضی تنازعہ یعنی رام جنم بھومی معاملے پر دیئے گئے فیصلے کے تعلق سے رنجن گوگوئی نے کہا کہ ’’لوگ رام جنم بھومی فیصلے کو مودی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ لوگ ایک عدالتی حکم اور ایک سیاسی فیصلہ کے درمیان باریک فرق نہیں دیکھ پاتے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’عدالت کا حکم ایک فریق کیلئے فائدہ مند ہوگا تو دوسرے کے لئے جانبداری والا۔ جس لمحہ آپ فیصلہ سناتے ہیں، اسی لمحہ لوگ جج کے دشمن بن جاتے ہیں۔‘‘
 رافیل کے تعلق سے سنائے گئے فیصلہ پر ہوئے تنازع کے بارے میں  پوچھے گئے سوال  پر بھی رنجن گوگوئی نے اپنا  دفاع  کیا اور پورے معاملے کی وضاحت کرنے کی کوشش کی۔   انھوں نے کہا کہ’’ باتیں کرنا آسان ہے، لیکن جب آپ چیف جسٹس کی کرسی پر بیٹھتے ہیں تب مشکل ہوتی ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ’’ اگر میری نیت صحیح ہے تو پھر کتنی بھی تنقید ہو اس سے فرق نہیں پڑتا۔‘‘ رنجن گگوئی نے مزید کہا کہ ’’رافیل کیس بے حد آسان تھا۔ سوال جہازوں کی خریداری کے تعلق سے تھا۔ کیا ہم جہاز کی  خریداری  کیلئے بھی وہی عمل اختیار کریں گے جو ایک بلڈنگ بنانے کیلئے اختیار کرتے ہیں؟ میں کہوں گا، نہیں۔ ائیرکرافٹ کی خرید میں پیرامیٹر مزید سخت ہوں گے۔‘‘
 مذکورہ فیصلوں کے بدلے راجیہ سبھا سیٹ حاصل کرنے کے الزام پر سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی نے واضح لفظوں میں کہا کہ مجھے تھوڑا تو کریڈٹ دیجیئے۔ جس نے ایودھیا، رافیل اور سبری مالا جیسے فیصلے سنائے کیا ضروری ہے کہ وہ مول بھاؤ کرے گا؟ اگر یہ مول بھاؤ ہوتا تو بہت بڑا ہوتا۔ صرف ایک راجیہ سبھا سیٹ اس کیلئے مول بھاؤ نہیں ہو سکتی۔
  واضح رہے کہ رنجن گوگوئی نے ۷۰؍ سال سے التواء کا شکار بابری مسجد  ۔ رام مندر معاملے کا  فیصلہ سنایا تھا اور  یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ ایودھیا میں کسی مندر کو گرائے جانےکا کوئی ثبوت نہیں ہے، اور یہ کہ ۱۹۴۹ء میں مسجد میں مورتیوں کا رکھا جانا اور ۱۹۹۲ء میں مسجد کو شہید کرنا غیر قانونی تھا ، انہوں نے مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کیلئے دیدینے کا فیصلہ سنایا تھا۔ اس کے بعد سے ہی ان پر الزامات کی شروعات ہوئی تھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK