Inquilab Logo

حسن عباس فطرت: ہائے اب کہاں ہیں ایسے قلمکار ، بہترین عالم ، ادیب ، مدبر ، صحافی اور مترجم

Updated: May 23, 2020, 4:22 AM IST | Mumbai

معروف بزرگ شیعہ عالم دین مصنف و صحافی مولانا حسن عباس فطرت کا پونے میں جمعرات کی صبح انتقال ہوگیا ۔ ۸۵؍سالہ عالم دین کا آبائی وطن قصبہ ہلور ضلع بستی ہے۔انہوں نے اپنی پوری زندگی دینی تعلیم کے فروغ اوردین اسلام کی ترویج واشاعت کیلئے وقف کردی تھی۔

Hasan Abbas Fitrat. Photo: INN
حسن عباس فطرت۔تصویر: آئی این این

 معروف بزرگ شیعہ عالم دین مصنف و صحافی مولانا حسن عباس فطرت کا پونے میں جمعرات کی صبح انتقال ہوگیا ۔ ۸۵؍سالہ عالم دین کا آبائی وطن قصبہ ہلور ضلع بستی ہے۔انہوں نے اپنی پوری زندگی دینی تعلیم کے فروغ اوردین اسلام کی ترویج واشاعت کیلئے وقف کردی تھی۔ ان کے انتقال پر کلیان کے سیّد ضیغم عباس زیدی نے دلی رنج وغم کا اظہارکیا اور مولانا مرحوم سے اپنے قریبی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے ان کی شخصیت پر روشنی ڈالی ہے۔ سیّد ضیغم عباس زیدی کہتے ہیں کہ قبلہ کی شفقتوں اور محبتوں کومیں کبھی بھلا نہیں سکوں گا۔ ۹۰؍ کی دہائی کے وسط میں جامعۃ الامام امیر المومنین نجفی ہاؤس میں دوران تعلیم وہ اکثر و بیشتر جامعہ میں تشریف لایا کرتے تھے۔ اگرچہ ان کی تحریروں سے پہلے ہی سے مانوس تھا ۔ روزنامہ انقلاب میں آپ کے شاہکار مضامین اور دیگر علمی و ادبی رسائل و جرائد میں شائع آپ کی تحریروں ،اخبار صداقت اور آپ کے ترجموں سے واقفیت تھی ۔ اسی وجہ سے آپ کی قدآور شخصیت کا رعب ہمارے اوپر طاری تھا لیکن جامعہ میں آپ سے پہلی ملاقات ہوئی تو وہ رعب اپنے آپ جاتا رہا کیوں کے وہ ایسی مرنجاں مرنج اور زندہ دل شخصیت تھے کہ تھوڑی ہی دیر میں غیروں کو بھی اپنا بنانا جانتے تھے۔پہلی ملاقات کے بعد ایسی قربت بڑھی کی بڑھتی ہی چلی گئی ۔ اس زمانے میں آپ جب بھی ممبئی آتے تو حقیر کو ضرور خبر کرواتے اور آپ کا قیام بائیکلہ والے گھر میں ہوتا۔ میں ہمیشہ آپ کی خدمت میں رہتا تھا۔ یہاں تک میں ایران چلا گیا۔ 
 انہوں نے مزید کہا کہ ایران میں دورانِ قیام جب بھی آپ کا ایران آنا ہوا، مجھے ضرور مطلع کیا اور ایک دفعہ تو آپ کے ایران سے واپسی پر میں مہرآباد ہوائی اڈے، تہران پر آپ کو رخصت کرنے گیا۔ آپ کے ساتھ آپ کی زوجہ بھی تھیں اور ایران ایئر سے آپ کا واپسی کا ٹکٹ تھا۔ اتفاق یہ ہوا کہ جب ہم ہوائی اڈے پہنچے تو ان دونوں کا ویزا چند گھنٹے قبل ختم ہوچکا تھا اور اس کا علم اسوقت ہوا جب ہم لوگ بورڈنگ کاؤنٹر پر پہنچے۔ خیر اس حقیر نے تھوڑی سی تگ و دو کے بعد یہ مسئلہ حل کروایا۔ مجھے یاد ہے کہ آپ اس واقعہ سے اتنا خوش ہوئے کہ بے ساختہ مجھے گلے سے لگایا لیا اور بہت دعائیں دیں ۔ میں ایران سے واپسی پر تبلیغی سلسلہ سے پونے پہنچا تو میں نے انہیں ٹیلیفون کیا اور اپنی آمد کی اطلاع دی تو وہ بہت خوش ہوئے اور میرے غریب خانے پر تشریف لائے اور اسکے بعد اکثر و بیشتر دن کے اوقات میرے یہاں تشریف لاتے اور پورا دن یہیں گزارتے ۔ شام کو اپنے شریعت کدہ پر واپس ہوتے اور ہمیشہ کہتے کہ تمہارے یہاں بہت سکون ملتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب آپ کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو ہم لوگ پونے کے قبرستان جنت آباد پہنچے۔ غسل و کفن ہورہا تھا، میں ان کے پاس ہی بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک صاحب آئے اور ان سے گویا ہوئے کہ جنازہ بس آمادہ ہوا چاہتا ہے، نماز سے پہلے کسی سے مختصر مجلس پڑھوانا ہے، کس سے پڑھوائیں ؟ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ان صاحب سے کہاکہ یہ میرا بیٹا پڑھے گا یہ مجلس اور پھر میں نے مجلس پڑھی۔
 سیّدضیغم عباس زیدی کے مطابق پونے قیام کے دوران ان سے بہت قربت رہی۔ تقریباً ۵؍ برس پونے میں رہنے کے بعد جب میں نے پونے کو خیرباد کہہ کر ممبئی کا رخ کیا تو انہوں نے مجھے ٹیلیفون کیا اور بہت ناراضگی اور خفگی کا اظہار کیا۔ ہائے افسوس ادھر کچھ دنوں سے میں ان سے رابطہ نہیں کرپایا تھا اور آج ان کے انتقال کی خبر سنی.... دل پاش پاش ہوگیا. ...چاہ کر بھی آپ کی تدفین میں شریک نہیں ہوسکتاتھا۔ ابھی اپنی کتابوں کی الماری سے آپ کے مضامین کی کچھ کتابیں نکالیں جس میں سر فہرست ’بیاں اپنا ‘ نامی کتاب بھی ہے۔ یہ کتابیں انہوں نے ہی مجھے بطور تحفہ عطا کی تھیں ۔ ان کتابوں کو دیکھا تو دل رونے لگا... ہائے اب کہاں ہیں ایسے قلمکار، بہترین عالم،ادیب، مدبر، صحافی اور مترجم اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
 انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک دفعہ میں نے ان سے کسی کے بارے میں پوچھا تو آپ نے بےساختہ کہا کے’’مرچکے‘‘۔ میں نے وضاحت دریافت کی تو فرمایا کہ انسان اپنی پوری زندگی میں بہت سے کام کرتا ہے، مرنا بھی ایک اہم کام ہے سو جناب وہ بھی کرچکے۔ایک بار خود ان کی طبیعت دریافت کی تو فرمانے لگے کہ کیا بتاؤں مرنے کی بہترین عمر نکل گئی، اب تو اضافی جی رہا ہوں ۔اس طرح کی نجانے کتنی یادیں ہیں جو قصہ ٔپارینہ بن چکی ہیں ۔ آخر میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ 
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں 
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں 
 یہ سطریں لکھ رہا ہوں اور سامنے مرحوم و مغفور کا مسکراتا چہرہ بار بار ابھر آتا ہے۔ اب تو بس یادیں ہی ہیں ... نماز وحشت قبر اور فاتحہ و دعاؤں کی گزارش ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK