۵؍عمارتیں منہدم،۱۲؍اموات،لاکھوں بے گھرفلسطینی شدید خطرے سے دوچار، کمزورعمارتوں سے دور رہنے کا انتباہ
غزہ کے خان یونس میں شدید بارش کے بعد لوگ سیلابی پانی سے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تصویر: اےپی/ پی ٹی آئی
غزہ میں مسلسل دوسرے روز بارش سے فلسطینیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا، اسرائیلی حملوں سے تباہ حال علاقے میں سیلابی صورتِ حال پیدا ہوگئی۔ موسم سرما کی بارش سے سردی کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ بارش کا پانی بے گھر فلسطینیوں کے خیموں میں داخل ہوگیا۔ دریں اثناءغزہ شہر کے مختلف علاقوں میں جمعرات کو موسلادھار بارش کے باعث کم از کم ۵؍ عمارتیں زمین بوس ہو گئیںاوراب تک ۱۲؍ فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔پورا علاقہ کئی دنوں سے قدرتی آفت کی زد میں ہے جس نے تباہ حال غزہ کو مزید مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔سول ڈیفنس کے مطابق گرنے والی عمارتوں میں سے تین تل الہوا اور النصر کے علاقوں میں واقع تھیں جبکہ دو عمارتیں جنوب مشرقی غزہ کے رہائشی علاقے الزيتون میں گریں۔ ان عمارتوں میں وہ فلسطینی خاندان پناہ لئے ہوئے تھے جو اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کے باعث اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔سول ڈیفنس نے سخت وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام عمارتیں جو پہلے ہی قابض اسرائیل کے وحشیانہ بمباری سے کمزور ہو چکی تھیں اب شدید بارش کے باعث مزید گرنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ مٹی کے کٹاؤ اور دیواروں میں بڑھتی دراڑیں ایسی عمارتوں کو نازک ترین صورتحال میں پہنچا چکی ہیں۔محکمے نے ان تمام بے گھر افراد سے اپیل کی جو اسرائیل کے حملوں سے متاثرہ ٹوٹی پھوٹی عمارتوں میں واپس چلے گئے ہیں کہ وہ فوری طور پر ان خطرناک ڈھانچوں کو خالی کریں کیونکہ یہ رہائش کے قابل نہیں رہیں۔سول ڈیفنس نے بتایا کہ گزشتہ ۲۴؍ گھنٹوں میں انہیں ۲۵۰۰؍ سے زائد ہنگامی کالز موصول ہوئیں جن میں بے گھرافراد نے اطلاع دی کہ تیز بارش کے باعث ان کے خیمے پانی میں ڈوب گئے ہیں۔بدھ کی صبح سے شروع ہونے والے شدید موسمی طوفان نے پورے غزہ میں ہزاروں خیمے بہا دیئے، بارش کے تیز بہاؤ نے خیموں میں موجود بچوں، عورتوں اور بزرگوں کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق خراب موسم جمعہ کی شام تک برقرار رہ سکتا ہے۔ادھر وزارتِ صحت غزہ کے ڈائریکٹر نے صورتحال کو نہایت سنگین قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ بحران موسمی طوفان سے بڑھ کر ہے کیونکہ ادویات کی شدید قلت ہے، خصوصاً دائمی بیماریوں کے علاج کی ادویات نایاب ہو چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سردی اب ’موت کا نیا دروازہ‘ بن چکی ہے اور۹۳۰۰؍ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جو بڑھتی ہوئی انسانی تباہی کی انتہائی خوفناک تصویر پیش کرتے ہیں۔
حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم تمام ثالثوں اور جنگ بندی کے ضامن ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قابض حکومت پر براہ راست دباؤ ڈالیں کہ وہ پناہ کا تمام ضروری سامان فوری طور پر اور بلا روک ٹوک داخل کرنے دے اور معبر رفح دونوں سمتوں سے کھولی جائے تاکہ متاثرہ خاندانوں کی انسانی ضروریات پوری ہو سکیں۔