ایس آئی آر کے بیجا تقاضوں سے عاجز ایک شہری کا سوال، یوپی کے مظفر پور میں جاری ایس آئی آرکے سبب پیدا ہونے والے قابل تشویش حالات کے جائزہ پر مشتمل تفصیلی رپورٹ:
EPAPER
Updated: December 06, 2025, 12:03 AM IST | Lucknow
ایس آئی آر کے بیجا تقاضوں سے عاجز ایک شہری کا سوال، یوپی کے مظفر پور میں جاری ایس آئی آرکے سبب پیدا ہونے والے قابل تشویش حالات کے جائزہ پر مشتمل تفصیلی رپورٹ:
مظفر نگر سے ۴۰؍کلومیٹر دور واقع کٹھولی کی طرف میں گرانڈ ٹرنک روڈ پر بس میں سوار جارہا تھا۔ میری نظر کچھ لوگوں پر پڑی جو ہاتھوں میں ایک جیسے کاغذات تھامے جارہے تھے۔ مجھے احساس ہوگیاکہ یہ وہی ’متاثرہ افراد ‘ ہیں جن کی مجھے تلاش ہے۔ میں نے فوراًبس کنڈکٹر کو اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا:’’مجھے یہیںاترنا ہے۔‘‘ ڈرائیور پہلے تو حیران ہوا پھر اس نے بس روک دی۔یہ میری خوش قسمتی تھی کہ اندازہ درست نکلا۔ یہ اُن ووٹروں کا گروہ تھا جو بوتھ لیول افسران سے ملنے کیلئے جارہا تھا۔ وہ اپنے ہاتھوں میں ایس آئی آر اینومریشن فارمز لئے ہوئے تھے۔
ان سبھی کی منزل قریب میں واقع نالہ تھا۔ جہاں چبوترے پربی ایل او بھی تھے۔ مگر سب مصروف اور پریشان نظر آ رہے تھے، کسی رپورٹر پر دھیان دینے کیلئے ان کے پاس وقت نہ تھا۔ ایک نے اچٹتی نگاہ ڈال کر مشورہ دیا کہ ’’کسبان چلے جاؤ‘‘ میں ٹس سے مس نہ ہوا۔ وہیں پر سکون انداز میں کھڑا رہا۔اسی شخص نے چند منٹوں کے بعدبتایا کہ کھالاپار ، کسبان میں تقریباً ۶۰۰؍ مسلمان رہائش پزیر ہیں، لیکن ان کے نام ووٹر لسٹ سے ۰۳۔۲۰۰۲ء سے نکال دئیے گئے ہیں۔ تب سے لے کر اب تک وہ اپنی ناموں کی واپسی کیلئے درخواست کرتے آرہے ہیں، مگر کوئی کامیابی نہیں ملی۔
اب جبکہ یوپی میں۴؍نومبر سے ۴؍ دسمبر کے درمیان ایس آئی آر کا عمل جاری ہے۔ وہ انتہائی بے چین و پریشان ہیں کہ کسی طرح ووٹر رجسٹریشن ہو جائے۔ چونکہ ان کے نام۰۳۔۲۰۰۲ءکی ووٹر لسٹ میں شامل نہیں تھے، اسلئے بی ایل اوکے پاس ان کے لیے پہلے سے پرنٹ شدہ انیومریشن فارم موجود نہیں ہیں۔ ایسے ہی ووٹروں میں موجود عارف نامی شخص نے امید ظاہر کی کہ’’ نئے ووٹروں کے اندراج کی خصوصی مہم تک تک شاید رکنا پڑے گا، اس کے بعد نام آجائے گا۔‘‘
دہلی سے ڈیڑھ سو کلومیٹر کی دوری پر واقع مظفر نگر اور کھٹاؤلی کے مسلمان ایس آئی آر کے سبب بے حد پریشان ہیں۔ انہوںنے یہ سن رکھا ہے کہ وزیراعلیٰ یوگی نےسبھی ضلع کے انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ وہ دراندازوں کے لئے ڈٹینشن سینٹر بنائے۔
ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے شیئر کیا جا رہا ہے،جس میں وزیرداخلہ امیت شاہ کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے جو دعویٰ کر رہے ہیں کہ مرکزی حکومت غیر قانونی مہاجرین کو ملک بدر کرنے کی سنجیدہ تیاری کر رہی ہے۔ اس ویڈیو کی صداقت جانے سمجھے بغیر لوگوں نے اسے اپنے فونز پر محفوظ کر لیا ہے، خوف کی کیفیت بدستور برقرار ہے۔
پرویز اور انعام ، نامی دو مقامی باشندے میرے قریب آئے اور عارف کے خدشات کو دہراتے ہوئے کہا کہ۲۰۱۴ء کے بعد سے وہ مسلمانوں کو نشانہ بنا کر ‘نشانی زد’ کرنے کی باتیں سن رہے ہیں۔ مگر اب ان احساسات نے خوف کا رنگ اختیار کر لیا ہے: گھر، زمین اور ملکیتی حقوق جانے کا ڈر، اور اس کے بعد ممکنہ حراستی مراکز یا ملک بدری کا خوف خاص طور پر ان لوگوں کیلئے جن کے پاس ذاتی شناخت یا مالی وسائل نہیں ہیں۔ ان کے چہروں پر مایوسی بھری کیفیت واضح طور پر نظر آرہی تھی۔یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کے بی ایل او پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، لوگ مسلسل انہیں فون کررہے ہیں، اس بارے میں بی ایل او کا کہنا ہے کہ وہ ہر ایک کو انفرادی طور پر جواب دینے سے قاصر ہیں۔
ایک بی ایل او نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایس آئی آئی فارم تقسیم کرنے کیلئے بنڈل بے ترتیبی سے بھیجے ہیں،کچھ خاندانوں کو فارم موصول ہوئے، جبکہ باقیوں کو ابھی تک انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ان میں سے بیشتر کو جب یہ جواب ملتا ہے کہ آپ کا فارم نہیں آیا ہے تووہ بی ایل او کو ہی شک و شبہ کی نگاہ دیکھتے ہیں۔ وارڈ کاؤنسلر نوشاد اور سموجوادی پارٹی کے لیڈر شارق خان نے تصدیق کی کہ ایسے بہت سارے لوگ ہیں جنہیں فارم نہیں ملے ہیں، انہوں نے سوال قائم کیا کہ ’’اگر فارم نہیں آئے تو کیا ہوگا؟‘‘ شارق خان نے مزید کہا کہ ’’ کیسا تضاد ہے! امیر لوگ اپنی شہریت ترک کر کے باہر جا رہے ہیں، اور غریب لوگ اپنی شہریت ثابت کرنے کے یہاں دیش میں قطاروں میں لگ رہے ہیں۔‘‘