خیرالاسلام کوآسام پولیس نے ۲۷؍مئی کو بنگلہ دیش بھیج دیا تھا ،چونکہ ان کا کیس سپریم کورٹ میں زیر التوا تھا ،اس لئے انہیں واپس لایاگیا اور انہوں نے گھروالوں کے ساتھ عید منائی
EPAPER
Updated: June 12, 2025, 9:11 AM IST | Guwahati
خیرالاسلام کوآسام پولیس نے ۲۷؍مئی کو بنگلہ دیش بھیج دیا تھا ،چونکہ ان کا کیس سپریم کورٹ میں زیر التوا تھا ،اس لئے انہیں واپس لایاگیا اور انہوں نے گھروالوں کے ساتھ عید منائی
اپنے گھر سے حراست میں لینے اور مبینہ طور پر سیکوریٹی فورسیز کے ذریعے بنگلہ دیش میں دھکیلنے کے دو ہفتے بعدجب انہیں واپس لایا گیا اور ان کے خاندان کے حوالے کیا گیا تب۵۱؍ سالہ خیر الاسلام نے آسام کےضلع موریگاؤں میں اپنے پیاروں کے ساتھ عیدمنائی ۔ انہوں نے’ انڈین ایکسپریس کو بتایا’’میرے ذہن میں اُن دنوں جو خیالات گزر رہے تھے ان کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جب میں بنگلہ دیش میں تھا۔ میں خوفزدہ تھا، مجھے یقین نہیں تھا کہ میں کبھی اپنے خاندان کے پاس واپس جا سکوں گا یا نہیں۔‘‘
خیر الاسلام کو جو سرکاری اسکول کے ایک سبکدوش ٹیچر ہیں ، ۲۰۱۶ء میں فارینرز ٹریبونل نے غیر ملکی قرار دیا تھا ۔’ انڈین ایکسپریس‘ کی رپورٹ کے مطابق ٹریبونل کے حکم کے خلاف ان کی اسپیشل لیو پٹیشن دسمبر۲۰۲۴ء میں سپریم کورٹ نے منظور کر لی تھی، اس کے باوجود آسام میں غیر ملکیوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کےدوران انہیں ۲۳؍ مئی کو پولیس نے حراست میں لے لیا تھا۔۲۷؍مئی کو خیر الاسلام کی جانب سے بنگلہ دیشی صحافی کا سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا گیا ایک ویڈیو پہلا اشارہ تھا جس میں بتایا گیا تھاکہ غیر ملکیوں کو بین الاقوامی سرحد پر ملک(بنگلہ دیش) میں دھکیلا جارہا ہے ۔ ویڈیو میں، جس میں مبینہ طور پر بنگلہ دیش کے ضلع کوریگرام میں خیر الاسلام کو دکھایا گیا تھا، انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ۲۳؍ مئی کو پولیس انہیں ان کے گھر سے مٹیا ٹرانزٹ کیمپ لے گئی جو آسام میں’غیر قانونی غیر ملکیوں‘ کو رکھنے کیلئے ایک حراستی مرکز ہے، اور۲۷؍ مئی کو انہیں ایک بس میں ڈالا گیا اور۱۳؍ دیگر افراد کے ساتھ سرحد کے پار دھکیل دیا۔ کچھ دنوں بعد آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے تصدیق کی کہ حکومت۴؍فروری کے سپریم کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دئیے گئے غیر ملکیوں کو واپس بھیج رہی ہے۔ تاہم، شرما نے یہ بھی کہا کہ گوہاٹی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں زیر التواء اپیلوں کو’ہراساں نہیں کیا جا رہا ہے‘۔ خیر الاسلام نے کہا’’میری اہلیہ نے ایک ویڈیو دیکھا تھا جس میں مَیں ایک ویران علاقہ میں پھنسا ہوا تھا ۔ ساتھ ہی، سی ایم نے یہ بھی کہا کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدمات والے لوگوں کو نہیں اٹھایا جا سکتا۔ چونکہ میرا کیس سپریم کورٹ میں ہے، اس لیے انہوں نے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس آفس کی بارڈر برانچ سے اپیل کی اور انہوں نے یقین دلایا کہ وہ مجھے کچھ دنوں میں واپس لانے کی کوشش کریں گے۔
اس طرح جمعرات کی شب مجھے واپس لایا گیا ‘‘۔ انہوں نے اس دن کو یاد کیا جب ان کاویڈیو بنایا گیاتھا۔ ان کے بقول ’’سیکوریٹی فورسیز نے ہمیں سرحد پر لے جا کر بنگلہ دیش میں دھکیل دیا، ہمارے پاس کوئی جائے پناہ نہیں تھی۔ بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (بی جی بی) نے ہمیں بھی دھکیل کر واپس زیرو لائن یا نو مینس لینڈ پر بھیج دیا، ہم سارا دن وہاں دھان کے کھیت میں دھوپ میں رہے، میں وہاں موجود۱۳؍ لوگوں کے ساتھ تھا، جب میڈیانے ہم سے بات کرنے کیلئے کہا تو ہمیں اپنی حالت کے بارے میں بتانا پڑا کیونکہ باقی۱۳؍ لوگ بات چیت کرنے سے لاچار تھے ۔ سارا دن وہاں گزارنے کے بعد بی جی بی ہمیں اپنے کیمپ میں لے گئی اور مجھے یاد ہے کہ یہ انڈا اور دال تھی، ہمیں دوسرے کیمپ میں لے جایا گیا اور ہم نے باقی دن وہیں گزارے، جب تک کہ ہم میں سے۷؍ کو شام کو بی ایس ایف کے حوالےکر دیا گیا۔‘‘واضح رہے خیر الاسلام ایک دہائی سے اپنی شہریت کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ گوہاٹی ہائی کورٹ نے۲۰۱۸ء میں غیر ملکی ٹریبونل کے حکم کو برقرار رکھا تھا جس کے بعد وہ ۲؍ سال تیج پور سینٹرل جیل میں نظربندی میں گزارے۔