پارٹی نے ہر اسمبلی حلقہ سے کم از کم ۵؍ہزاراقلیتی ووٹروں کو ہموار کرنے کا روڈ میپ تیار کیا ، ریاستی اقلیتی سیل کی’ ذمہ داری ‘میں اضافہ ، ایک کروڑ مسلمانوں سے رابطہ کا ہدف
EPAPER
Updated: September 08, 2021, 9:16 AM IST | Lucknow
پارٹی نے ہر اسمبلی حلقہ سے کم از کم ۵؍ہزاراقلیتی ووٹروں کو ہموار کرنے کا روڈ میپ تیار کیا ، ریاستی اقلیتی سیل کی’ ذمہ داری ‘میں اضافہ ، ایک کروڑ مسلمانوں سے رابطہ کا ہدف
تر پردیش اسمبلی انتخابات کا بگل بجنے میں ابھی وقت ہے مگر سیاسی جماعتیں پہلے ہی سرگرم ہوچکی ہیں۔ بر سراقتدار بی جے پی ہویا اسے چیلنج کرنے والی کانگریس، سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی یا پھراسدالدین اویسی اور راج بھرکا مورچہ سبھی نے تیاریاں تیز کردی ہیں۔ چونکہ یہاں اقلیت بالخصوص مسلمان ووٹرز بہت بڑی تعداد میں ہیں اور تقریباََ ۹۰؍تا ۱۰۰؍سیٹوں پر جیت ہار طے کرنے میں نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں، اس لئے تمام پارٹیوں کی اس طبقہ پر نظر ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اقلیت سے دور بھاگنے والی بی جے پی کو بھی اس بار مسلمانوں کی یاد آنے لگی ہے، جس نے انہیں راغب کرنے کے لئے ایک خاص روڈ میپ تیار کیا ہے۔
بی جے پی کی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس اور خود برسر اقتدار جماعت کی قومی لیڈر شپ نے اس مرتبہ مسلمانوں کو بطور خاص انتخابات کے پیش نظر لبھانے کی حکمت عملی تیار کی ہے۔ انتخابات کی منصوبہ سازی میں شامل بھگوا تنظیموں کے لیڈران نے جو روڈ میپ تیار کیا ہے اس کے مطابق، کم از کم ۵؍ہزار مسلمانوں کو ہر اسمبلی حلقہ میں پارٹی سے جوڑنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ انہیں بی جے پی سے جوڑنے کی ذمہ داری ریاستی اقلیتی سیل کو دی گئی ہے، جس کی نئی ٹیم کی تشکیل چند ماہ قبل ہی ہوئی ہے۔
پارٹی ذرائع کے مطابق، ہائی کمان کی ہدایت پر ریاستی یونٹ ۲؍انچارج نامزدکرے گی ۔اقلیتی سیل کو کل ایک کروڑ مسلمانوں سے رابطہ کر نے کیلئے کہا گیا ہے۔اس کے لئے پارٹی نے ہر اسمبلی حلقہ میں ۵۰؍ورکروں کو نامزد کرنے کا عمل شروع کردیا ہے۔ ہر ایک کارکن کو ۱۰۰؍ افراد کو پارٹی سے جوڑنے کا ہدف دیا جارہا ہے۔ اس طرح، ہر حلقہ میں پارٹی ۵؍ہزار مسلمانوں کو جوڑے گی۔
بی جے پی لیڈر شپ نے ان لوگوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اقلیتوں کے درمیان جاکر مودی اور یوگی حکومت کےا ن کاموں کوبطور خاص بیان کریں جو اقلیتوں کی فلاح و بہبود کیلئے کئے گئے ہیں یا آئندہ کئے جانے ہیں۔ان میں اسکالر شپ، طلاق ثلاثہ مخالف قانون جیسے معاملے سر فہرست ہیں۔طلاق ثلاثہ کے بارے میں خاص طور پر مسلم خواتین کو بتانے کی ہدایت دی گئی ہے جبکہ نوجوانوں کو اسکالر شپ اور دیگر اقدام کے تعلق سے بتاکر رام کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ویسے کاروبار اور اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام جن سے مسلمانوں کا پرانا رشتہ رہا ہے، ان شعبوں میں مرکزی و ریاستی بی جے پی حکومت کے کاموں کو بھی اہمیت کے ساتھ ان کے سامنے رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔
بی جے پی آنے والے دنوں میں اپنی اقلیتی سیل کے بینر تلے مسلمانوں سے متعلق کئی پروگرام بھی منعقد کرے گی۔ ساتھ ہی مسلمانوں سے سیدھے جڑنے کیلئےان سے متعلق’ سمیلن‘ کے انعقاد پربھی غور کیا جارہا ہے۔علاوہ ازیں، پارٹی رواں ماہ کے آخر میں بڑے پیمانے پر ایک اقلیتی کانفرنسوں کے انعقاد کا منصوبہ رکھتی ہے۔ غور طلب ہے کہ گزشتہ اسمبلی ا نتخابات کے دوران بی جے پی نے ایک بھی مسلم امیدوار نہیں اتارا تھا۔جب اس پرتنقید ہوئی تو اس کا دو ٹوک جواب تھا کہ یہ طبقہ اس کے مسلم امیدوار کو بھی ووٹ نہیں دیتا ہے مگر الیکشن بعد اس نے دعویٰ کیا کہ اسے ۷؍ سے ۸؍ فیصد مسلم ووٹ بھی ملے ہیں۔
ریاست میں بی جے پی کا سب سے بڑا چہرہ محسن رضا ہیں جو ایم ایل سی ہیں۔انہیں کابینی درجے کا وزیر بنانے کے بجائے وزیر مملکت بنایا گیا ہے۔ ان پر بھی پارٹی نے پچھلےا لیکشن میں بھروسہ نہیں کیا تھا مگر حکومت میں آنے کے بعد ایک مسلم چہرہ کے طور پر انہیں یوگی کابینہ میں شامل کیا گیا۔بی جے پی کی ا س حکمت عملی کے تعلق سے کہا جارہاہے کہ اسے اپنےا میدواروں کیلئے مسلم ووٹ حاصل کرنے سے زیادہ دلچسپی اس بات میں ہے کہ یہ ووٹ کسی ایک اپوزیشن جماعت کی طرف نہ جانے پائیں۔اس کے علاوہ حکومت مخالف لہر کی وجہ سے کم ہونے والے ووٹوں کی بھرپائی بھی کچھ مسلم ووٹ حاصل کرکے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔