Inquilab Logo

کیا بازار سمیتی الیکشن کے نتائج بی جے پی کیلئے آئندہ خطرے کی گھنٹی ہیں؟

Updated: May 04, 2023, 3:13 PM IST | Mumbai

لوک سبھا الیکشن میں مشکل سے سال بھر باقی ہے، مہاراشٹر میں کئی مقامات پر کارپوریشن الیکشن نہیں ہوئے ہیں جو کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں۔

Bazar Samiti election results are encouraging for Maha Vikas Aghadi (File photo)
بازار سمیتی الیکشن کے نتائج مہا وکاس اگھاڑی کیلئے حوصلہ افزا ہیں( فائل فوٹو)

لوک سبھا الیکشن میں مشکل سے سال بھر باقی ہے،  مہاراشٹر میں کئی مقامات پر کارپوریشن الیکشن  نہیں ہوئے ہیں جو کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں۔ پھر ڈیڑھ سال بعد اسمبلی الیکشن کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔ یعنی ریاست کیلئے ہر طرح سے یہ انتخابی سال ہے۔ ایسی صورت میں مہاراشٹر کے مختلف اضلاع میں ہونے والے بازار سمیتی کے انتخابات بے حداہم خیال کئے جا رہے تھے۔ اس الیکشن  کے جو نتائج آئے ہیں اس نے ضرور بی جے پی کے حوصلے پست کر دیئے ہوں گے۔ 
  مجموعی طور پر ۱۴۷؍ مقامات پر  انتخابات ہوئے جن میں سے  ۴۰؍ پر بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ جبکہ اسکی حلیف شیوسینا( شندے) کو صرف ۸؍ کمیٹیوں پر قبضہ مل سکا ہے۔ ادھر  شرد پوار کی پارٹی این سی پی کے حصے میں بی جے پی کے مقابلے صرف ۲؍ سیٹیں کم آئی ہیں ۔ یعنی اسے ۳۸؍ سیٹیں ملی ہیں ۔ اسکی دائمی حلیف کانگریس کو ۳۱؍ سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ اس طرح دونوں نے مجموعی طور پر ۷۱؍ کمیٹیوں پر قبضہ کیا ہے جبکہ مہا وکاس اگھاڑی کی تیسری اہم پارٹی شیوسینا ( ادھو)  نے ۱۱؍ مقامات پر کامیابی حاصل کی ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مہا وکاس اگھاڑی کے حصے میں ریاست کی  ۸۲؍ بازار کمیٹیاں آئی ہیں۔  یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی اس بات کا شور مچا رہی ہے کہ وہ ۴۰؍ سیٹیں لے کر سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے۔      
  این سی پی کے ریاستی سربراہ جینت پاٹل نے بجا طور پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’ ان نتائج سے واضح ہے کہ اب شندے فرنویس کی رخصتی طے ہے۔‘‘  انہوں نے ان نتائج کو عوام کی جانب سے ریاست میں مہا وکااس اگھاڑی کے اقتدار میں لوٹنے کا پیغام قرار دیا ہے۔  اس بات میں دم اسلئے نظر آ رہا ہے کہ  بی جے پی  اور شندے گروپ کے کئی جغادری لیڈروں نے اس الیکشن میں  مات کھائی ہے۔ مالیگائوں میں ریاستی وزیر  دادا بھسے کی ایک نہیں چلی، جبکہ ناگپور میں روی رانا  کے بھائی کو شکست کاسامنا کرنا پڑا، احمد نگر میں رادھا کرشن وکھے پاٹل جیسے طاقتور لیڈر کے امیدوار وں کو شکست کا سامناکرنا پڑا۔   یاد رہے کہ اپریل کے آخر میں کسانوں نے جو لانگ مارچ نکالا تھا  اس  وقت  رادھا کرشن وکھے پاٹل کی رہائش گاہ کا گھیرائو کرنا بھی ان کے پروگرام میں شامل تھا لیکن اس سے پہلے ہی وکھے پاٹل نے جاکر پرانت آفس میں کسانوں سے ملاقات کی تھی اور مارچ ختم کرنے پر آمادہ کیا تھا ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کسان  شندے حکومت کے وزیروں سے ناراض ہیں۔ بازار سمیتیوں کے الیکشن کا تعلق براہ راست کسانوں ہی سے ہے۔ آئندہ  رتناگیری ریفائنری معاملہ اس پر  آگ میں گھی کا کام کر سکتا ہے۔  اسکے علاوہ بی جے پی جس طرح اقتدار کیلئے جوڑ توڑ اور زورزبردستی پر آمادہ ہے اسکا بھی مہاراشٹر کے عوام پر خاصا اثر پڑ رہا ہے۔ ادھو ٹھاکرے پر بی جے پی والے جس این سی پی سے ہاتھ ملانے پر لعن طعن کر رہے تھے اسی کے ساتھ مل کر آئندہ حکومت تشکیل دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسی  صورت میں  عام ووٹر بی جے پی کی موقع پرستی سے باخبر ہو چکا ہے۔  ہندوتوا کا کارڈ کھیلنے کیلئے اسے جن زمینی کارکنان کی ضرورت  ہے وہ سارے شیوسینا میں ہیں اسکے اپنے پاس زمین کارکنان نہیں ہیں۔ اسکا احساس اسے کئی بار ہوا ہے۔نیز کریٹ سومیا کے ذریعے پرانے کیس نکلوا کر لیڈروں کی جائیداد پر ہتھوڑے چلوانا شاید ہی بی جے پی کے کام آئے کیونکہ اس سے وہ لیڈران بھی چوکنا ہو گئے ہیں جو اس وقت بی جے پی کے ساتھ ہیں یا اس کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ میڈیا میں جو بھی شور ہو لیکن زمینی سطح پر بی جے پی کو  نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے کیونکہ نچلی سطح پر غیر قانونی تعمیرات والے کسی نہ کسی لیڈر کے  حامی یا کارکن ہی ہوتے ہیں۔   فی الحال بازار سمیتی الیکشن اور مہا وکاس اگھاڑی کی ریلیوں میں عوام کی بھیڑ نیز بی جے پی کا این سی پی کا سہارا ڈھونڈنے کی کوشش ،  یہ باتیں  ظاہر کرتی ہیں کہ بی جے پی کیلئے آئندہ  سیاسی صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ 

mumbai bjp Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK