Inquilab Logo

ملک میں فوج کی حکمرانی یا آمریت ہو: پیو سروے میں ۸۵؍ فیصد ہندوستانیوں کا جواب

Updated: March 14, 2024, 2:01 PM IST | Mumbai

۲۰۲۳ء میں پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے کئے گئے سروے میں ۲۴؍ ممالک میں حکمرانی کے جمہوری نظام پر لوگوں کی رائے معلوم کی گئی۔ ۸۲؍ فیصد ہندوستانیوں نے ’ٹیکنوکریسی‘ کے حق میں ووٹ دیا۔ اس نظام میں ملک کیلئے فیصلے کی اجازت ماہرین کو ہوتی ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

امریکی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے ۲۰۲۳ء کے ایک سروے میں شامل ۸۵؍ فیصد ہندوستانیوں نے کہا ہے کہ ملک میں فوج کی حکمرانی ہو یا پھر آمریت ہو۔یہ تحقیق دنیا کے ۲۴؍ ممالک میں وہاں کے جمہوری نظام کے متعلق رائے جاننے کیلئے کی گئی تھی جس میں بالغ ہندوستاینوں کی بڑی تعداد نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان میں فوجی حکمرانی یا آمریت ہونی چاہئے۔
’’جمہوریت حکمرانی کی مقبول مثال ہے لیکن دنیا بھر کے لوگ اس کے کام کے طریقے پر تنقید کرتے ہیں‘‘ نامی یہ رپورٹ مختلف ممالک کے بالغ افراد کے جوابات کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ امریکہ میں اس سروے میں ۲۷؍ ہزار ۲۸۵؍ بالغوں نے حصہ لیا تھا اور یہ تحقیق ۲۰؍ فروری ۲۰۲۳ء سے ۲۲؍ مئی ۲۰۲۳ء تک کی گئی تھی۔ 
۲۵؍ مارچ ۲۰۲۳ء سے لے کر ۱۱؍ مئی ۲۰۲۳ء تک ہندوستان میں ۲؍ ہزار ۶۱۱؍ افراد سے اس موضوع پر بالمشافہ گفتگو کی گئی۔اس سروے میں انڈومان نکوبار، لکش و دیپ اور شمال مشرقی ریاستوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
تجزیہ میں انکشاف ہوا کہ ۲۰۱۷ء کے مقابلے میں ایسے ہندوستانیوں کی تعداد ۸؍ فیصد سے کم ہوئی ہے جو جمہوریت کو حکمرانی کا بہتر متبادل تصور کرتے ہیں۔ 
سروے میں شامل دو تہائی یعنی ۶۷؍ فیصد ہندوستانیوں نے کہا کہ وہ آمریت کی حمایت کرتے ہیں جس میں ایک مضبوط لیڈر کو ملک کے حق میں فیصلے کرنے کی آزادی ہونی چاہئے اور اس میں کسی اور شخص یا عدالت کو مداخلت کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ ۲۰۱۷ء کے مقابلے میں آمریت کے حق میں ۱۲؍ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 
کنیڈا اور یورپ کے بیشتر ممالک کے یہ کہنے کے ساتھ کہ آمریت حکومت کرنے کا ایک ’’انتہائی برا‘‘ طریقہ ہے، رپورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کسی ملک کی فی کس مجموعی گھریلو پیداوار کا براہ راست تعلق عوام کے حصہ سے ہوتا ہے جو مطلق العنان حکمرانی کی حمایت کرتے ہیں۔ رپورٹ میں نوٹ کیا گیا ہے کہ ’’فی کس اعلیٰ جی ڈی پی والے ممالک میں کم لوگ ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ایک مضبوط لیڈر کی حکمرانی حکومت کرنے کا ایک اچھا طریقہ ہے۔‘‘
تاہم، اس میں یہ بھی واضح ہوا کہ زیادہ آمدنی والی جمہوریتوں میں بھی، جواب دہندگان کا ایک اہم حصہ ایک مضبوط لیڈر کی حکمرانی کو حکومت کرنے کا ایک اچھا طریقہ قرار دیتا ہے، بشمول جاپان، پولینڈ، جنوبی کوریا، برطانیہ اور امریکہ۔ 
ہندوستان میں فوجی حکمرانی کو ۲۹؍ فیصد رائے دہندگان ’’تھوڑا اچھا‘‘ اور ۴۳؍ فیصد نے ’’بہت اچھا‘‘ قرار دیا۔ 
شمالی امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، اسرائیل اور جنوبی کوریا میں، فوجی حکمرانی یقینی طور پر غیر مقبول ہے: دس میں سے آٹھ یا اس سے زیادہ نے اسے حکومت کا ’’خراب‘‘ نظام قرار دیا۔ 
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کل ۸۲؍ فیصد ہندوستانی جواب دہندگان نے ’’ٹیکنو کریسی‘‘ کی حمایت کا اظہار کیا۔ اس نظام میں ماہرین ملک کیلئے فیصلے کرتے ہیں منتخب لیڈران نہیں۔ سروے میں شامل تمام ممالک میں سب سے زیادہ ہندوستانیوں نے اس نظام کو بہترین قرار دیا۔ ۲۰۱۷ء کے بعد سے اس قسم کی حکومت کی حمایت میں ۱۷؍ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 
ہندوستانی جواب دہندگان کی اکثریت یعنی ۵۴؍ فیصد نے یہ بھی مانا کہ منتخب نمائندے اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ لوگ کیا سوچتے ہیں۔ تاہم، ۵۸؍ فیصد نے محسوس کیا کہ ملک میں کم از کم ایک سیاسی جماعت کی نمائندگی ہے۔
آمریت اور ٹیکنو کریسی کیلئے زبردست حمایت کے باوجود کل ۷۲؍ فیصد ہندوستانی جواب دہندگان نے کہا کہ وہ مطمئن ہیں کہ ان کے ملک میں جمہوریت کیسے کام کر رہی ہے۔ تاہم، یہ اطمینان وقت کے ساتھ کم ہوا ہے کیونکہ ۲۰۱۷ء میں اس کا فیصد ۷۹؍ تھا۔ 
مزید برآں، ۷۹؍ فیصد ہندوستانیوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے حق میں رائے دی۔ اپوزیشن لیڈروں کی درجہ بندی کے لحاظ سے ۶۲؍ فیصد نے راہل گاندھی کے بارے میں موافق رائے دی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK