Inquilab Logo

صفورہ زرگر اور دیگرمظاہرین کو عالمی حمایت، رہائی کا مطالبہ

Updated: May 16, 2020, 4:00 AM IST | New Delhi

امریکی نگراں  ادارے کا اظہارِتشویش، رہائی کی مانگ کی ، برطانیہ کے ۹۰؍ دانشوروں نے مشترکہ بیان جاری کیا، اسے اختلاف رائے پر حملہ قراردیا، ملکی سطح پر بھی حمایت میں اضافہ۔ لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھا کر دہلی پولیس کےذریعہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں  کی گرفتاری عالمی سطح پر بحث اور مذمتوں  کا موضوع بن گئی ہے۔ خاص طور سے ۳؍ ماہ کی حاملہ صفورہ زرگر کی گرفتاری اور پھر سوشل میڈیا پر ان کی کردارکشی کی کوششیں  پوری دنیا میں  ہندوستان کی بدنامی کا سبب بن رہی ہیں۔

Safura Zargar. Photo: INN
صفورا زرگر۔ تصویر: آئی این این

 لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھا کر دہلی پولیس کےذریعہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں  کی گرفتاری عالمی سطح پر بحث اور مذمتوں  کا موضوع بن گئی ہے۔ خاص طور سے ۳؍ ماہ کی حاملہ صفورہ زرگر کی گرفتاری اور پھر سوشل میڈیا پر ان کی کردارکشی کی کوششیں  پوری دنیا میں  ہندوستان کی بدنامی کا سبب بن رہی ہیں ۔ حقوق انسانی سے متعلق امریکہ کے نگراں  ادارے ’’یونائٹیڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم‘ (یو ایس سی آئی آر ایف) نے صفورہ زرگر اور شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرہ کرنے والے دیگر کارکنوں  کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے قبل برطانیہ میں  ۹۰؍ دانشوروں  کے گروپ نے ایک مشترکہ بیان میں  شہریت ترمیمی ایکٹ کے مظاہرین کی حمایت کرتے ہوئے حکومت کے ذریعہ ان کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔
 بین الاقوامی میڈیا کی بھی توجہ کا مرکز
  بین الاقوامی میڈیا بھی اس معاملے پر خاصی توجہ دے رہاہے، خصوصی طورپر صفورہ زرگر کے معاملے کی وجہ سے جو۳؍ ماہ کی حاملہ ہیں  مگر انہیں   ضمانت تک نہیں  ملی ہے۔ ہندوستانی سطح پر بھی صفورہ اور دیگر مظاہرین کے حق میں  آواز بلند کرنے والوں  کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جامعہ کی طالبات کے ذریعہ صفورہ اور دیگر مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے بعد حیدرآباد کی مسلم خواتین کی تنظیموں   نے  بھی صفورہ کی حمایت میں  آواز بلند کی ہے۔ 
 امریکی نگراں  ادارے کی اظہار تشویش
 یو ایس سی آئی آر ایف نے جمعرات کو ایک ٹویٹ کے ذریعہ تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ’’یہ رپورٹیں   مل رہی ہیں  کہ کووِڈ-۱۹؍ کے بحران کے دوران ہندوستانی حکومت صفورہ زرگر کوجو حاملہ ہے اور اُن مسلم رضاکاروں کو گرفتار کر رہی ہے جنہوں  نے سی اے اے کے خلاف احتجاج کیاتھا۔‘‘ ٹویٹ میں   ہندوستان کو اس باز رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ ’’موجودہ حالات میں  تو ہندوستان کو قیدیوں  کو رہا کرنا چاہئےنہ کہ انہیں  گرفتار کرنا چاہئے جو احتجاج کے اپنی جمہوری حق کا استعمال کررہے تھے۔‘‘ 
ہندوستان پہلے ہی’ باعث تشویش ممالک ‘کی فہرست میں  ہے
 واضح رہے کہ مذہبی منافرت کے بڑھتے ہوئے معاملات کی وجہ سے حال ہی میں  امریکی نگراں  ادارے نے ہندوستان کومذہبی حقوق پامال کرنے والے سرفہرست ممالک میں  شامل کرتے ہوئے امریکی حکومت سے پابندیوں  کی سفارش بھی کی تھی۔ ادارہ نے خاص طور سے حکومت ہند پر اپنی مسلم اقلیت کو تحفظ فراہم کرنے میں  ناکام رہنے کا الزام عائد کیا ہے۔ امریکی ادارے نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے ایک اورٹویٹ میں کہا ہےکہ’’ یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی سالانہ رپورٹ برائے ۲۰۲۰ء میں  سفارش کی ہے کہ ہندوستان کو باعث تشویش ممالک کی فہرست میں شامل کیا جائےجہاں  ۲۰۱۹ء میں  مذہبی آزادی کی مسلسل، منظم اور ظالمانہ خلاف ورزی ہوتی رہی ہے۔‘‘ٹویٹ میں   کہا گیاہے کہ بدقسمتی سے یہ رجحان ۲۰۲۰ء میں  بھی جاری ہے۔
برطانوی دانشوروں کا مذمتی بیان
  عالمی سطح پر دانشور طبقہ بھی یہ محسوس کررہاہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی پاداش میں  صفورہ زرگر اور دیگر مظاہرین کو دہلی فساد کا ملزم بنا کر گرفتار کیا جارہاہے۔ برطانیہ کے ۹۰؍ دانشوروں  کے ایک گروپ نے دہلی پولیس کی اس کارروائی کواختلاف رائے اور شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں  پر ’’ظالمانہ کریک ڈاؤن‘‘ قرار دیا ہے۔ بیان میں  کہاگیا ہے کہ مودی حکومت طلبہ اور رضاکاروں   کونشانہ بنارہی ہے۔ دانشوروں  نے خاص طور سے صفورہ زرگر، عمر خالد اورمیراں  حیدر پر عائد کئے گئے الزامات پر تشویش کااظہار کیا ہے جنہوں  نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرہ میں  کلیدی رول ادا کیاتھا۔ بیان جاری کرنے والوں  میں  لندن اسکول آف اکنامکس، آکسفورڈ یونیورسٹی،کیمبرج یونیورسٹی اور برطانیہ کے دیگر معروف اداروں سے وابستہ دانشور شامل ہیں ۔
 قومی سطح پر بھی حمایت میں  اضافہ
 قومی سطح پر بھی صفورہ زرگر اور شہریت ترمیمی ایکٹ کے دیگر مظاہرین کو انصاف پسند حلقے کی بھر پور حمایت مل رہی ہے۔ ایک طرف جہاں  جامعہ کی طالبات نے صفورہ زرگر اور دیگر کے ساتھ یکجہتی کااعلان کیا اورسوشل میڈیا پر ان کی کردار کشی کرنے والوں  کو آڑے ہاتھوں  لیا وہیں  عوامی سطح پر بھی ان کے حق میں  آواز بلند ہورہی ہے۔ حیدرآباد مسلم ویمنس فورم نے صفورہ زرگر، عشرت جہاں اور گل افشاں  جیسی جامعہ کی سرگرم طالبات کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ تنظیم نے طالبات پر یو اے پی اے جیسے ظالمانہ قانون کے اطلاق کی بھی مذمت کی ہے۔ تمام الزامات واپس لے کر ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے مسلم خواتین کی تنظیم نے اپنے جمہوری حق کیلئے آواز بلند کرنے والوں  کے خلاف کی جارہی ظالمانہ کارروائیوں  کی مذمت کرتےہوئے حکومت سے اس سے باز آجانے کا مطالبہ کیا ہے۔ 
 ایم بی اےکی طالبہ گلفشاں فاطمہ کو ضمانت 
 اس بیچ دہلی کی ایک عدالت نے ایم بی اے کی طالبہ اور سرگرم سماجی کارکن گلفِشاں  فاطمہ کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم سنایا ہے۔ گل افشاں  بھی شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں میں  پیش پیش رہی ہیں  جس کے بعد انہیں   فروری میں  لاک ڈاؤن کے دوران دہلی فساد میں  ملوث ہونے کا الزام عائد کرکے گرفتار کرلیاگیا۔ وہ پنجرہ توڑ نامی تنظیم سے وابستہ ہیں ۔ پولیس کا الزام گلفِشاں  نے اپنی تقریروں  کے ذریعہ عوام کو اشتعال دلایا جس کے نتیجے میں  دہلی میں  فساد پھوٹ پڑا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کپل مشرا کی تقریر پر پولیس نے کوئی کارروائی نہیں  کی ہے۔ 
 سی اے اے مخالف مظاہروں میں سرگرم رہنے والے جامعہ کے ایک اور طالب علم کو نوٹس
 شہریت ترمیمی ایکٹ ، این پی آر اور این آر سی کے خلاف مظاہروں میں  پیش پیش رہنےو الے جامعہ کے ایک اور طالب علم کو دہلی پولیس نے ظالمانہ قانون یواے پی اے کے تحت نوٹس بھیجا ہے۔ چندن کمار نامی مذکورہ طالب کو بھی بادی النظر میں  دہلی پولیس دہلی فسادات کا ملزم بنانے کی تیاری کررہی ہے۔ دہلی پولیس کے ایک سینئر افسر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ چندن کمار کو یواے پی اے کی دفعہ ۴۳(ایف) کے تحت پوچھ تاچھ کا نوٹس بھیجا گیاہے۔ چندن کمار کو جانچ میں  شامل ہونے کی ہدایت دیتے ہوئے متنبہ بھی کیاگیاہے کہ بصورت دیگر ان کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK