Inquilab Logo

راج ٹھاکرے اور بی جے پی کے درمیان اتحاد کا معاملہ التواء میں ہےیا ختم ہو چکا ہے؟

Updated: April 05, 2024, 12:35 PM IST | Agency | Mumbai

امیت شاہ کی شرط تھی کہ ایم این ایس کے امیدوار انجن کے بجائے، کنول، گھڑی یا تیرکمان کے نشان پر الیکشن لڑیں جس کے معنی تھے راج ٹھاکرے کی اپنی پارٹی کا وجود ختم کر دینا۔

MNS chief Raj Thackeray. Photo: INN
ایم این ایس سربراہ راج ٹھاکرے۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ ماہ میڈیا میں اس بات کا بڑا شور تھا کہ راج ٹھاکرے کی پارٹی مہاراشٹر نو نرمان سینا اور بی جے پی درمیان اتحاد ہونے جا رہا ہے۔ اس طرح بی جےپی کی قیادت والی ’مہا یوتی‘ کو مزید طاقت پہنچائی جائے گی۔ راج ٹھاکرے دہلی جا کرامیت شاہ سے ملاقات بھی کر آئے۔ میڈیا نے خوب شور مچایا کہ ’ مہایوتی‘ کے اتحاد میں چوتھا ساتھی شامل ہونے والا ہے۔ اور مہاراشٹر میں بی جے پی کے پاس جس ’ شعلہ بیانی‘ کی کمی ہے وہ پوری ہونے جا رہی ہے۔ اس ملاقات کو۱۵؍ دن سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر اب تک اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اور ذرائع کی بات مانیں تو شاید اب کوئی پیش رفت ہوگی بھی نہیں۔ 
 دراصل راج ٹھاکرے سے امیت شاہ کی ملاقات اور امیت شاہ کا اپنے حلیفوں کی سیٹوں کی تعداد میں تخفیف کرکے ایم این ایس کو ۲؍ پارلیمانی سیٹیں دینے کی تجویز اپنے آپ میں حیران کن تھی لیکن میڈیا نے اس خبر کو پوراد ن چلایا تھا جیسے سیاست میں کوئی اہم موڑ آنے والا ہو۔ ا ن دو سیٹوں کے نام بھی بتا دیئے گئے کہ سائوتھ ممبئی اور شیرڈی کی سیٹیں ایم این ایس کو دی جائیں گی جن میں سے ایک پر راج کے بیٹے امیت ٹھاکرے اور دوسری پر ان کے معتمد خاص بالا ناندگائونکر کو ٹکٹ دیا جائےگا۔ راج ٹھاکرے نے اس معاملے میں میڈیا سے کوئی بات نہیں کی لیکن بالا ناندگائونکر نے کہا تھا کہ ۲؍ یا ۳؍ دن میں سارا منظر نامہ صاف ہو جائے گا۔ لیکن ۱۵؍ دنوں بعد بھی ہوا کچھ نہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: ہلبا سماج کی جانب سے بی جے پی کے خلا ف ووٹ دینے کا فیصلہ

 ذرائع کا کہنا ہے کہ راج ٹھاکرے اور امیت شاہ کی ملاقات محض میڈیا میں یہ تاثر قائم کرنے کیلئے تھی کہ قومی سیاست میں بی جے پی کا جلوہ برقرار ہے اور ہر چھوٹی بڑی پارٹی اس سے ہاتھ ملانے پر آمادہ ہے۔ چونکہ راج ٹھاکرے ایک شعلہ بیان مقرر ہیں، نیز ٹھاکرے گھرانے کے اہم ستون ہیں، اسلئے ان کے آنے سے این ڈی اے کو مہاراشٹر میں مضبوطی نصیب ہوگی۔ نہ تو امیت شاہ راج ٹھاکرے سےہاتھ ملانے کے حق میں تھے اور نہ این ڈی اےمیں اتنی گنجائش تھی کہ وہ ایم این ایس کو اپنے حلیفوں کی سیٹیں دیدیتے۔ 
  مہاراشٹر کے وزیر تعلیم دیپک کیسر کر جو اس ملاقات کا حصہ نہیں تھے، نے ملاقات کے فوراً بعدمیڈیا میں بیان دیا تھا کہ راج ٹھاکرے کو ۲؍ سیٹیں دینے پر امیت شاہ نے رضامندی ظاہر کی ہے لیکن انہوں نے یہ شرط رکھی ہے کہ ان کے امیدوار ان کی پارٹی کے نشان ’انجن‘ پر الیکشن نہیں لڑیں گے بلکہ اپنے حلیفوں میں سے کسی ایک یعنی ’کنول، گھڑی یا تیر کمان‘ کے نشان پر الیکشن لڑیں گے۔ راج ٹھاکرے اس معاملے میں پس و پیش میں تھے۔ کیونکہ اس تجویز کا مطلب تھا کہ راج ٹھاکرے کی اپنی پارٹی کے وجود کو ختم کر دینا۔ رپورٹ کے مطابق امیت شاہ نے راج ٹھاکرے کو اس تجویز پر ۲۴؍ گھنٹوں کے اندر غور کرکے جواب دینے کیلئے کہا تھا جو کہ انہوں نے نہیں دیا۔ 
  بعض حلقوں میں یہ دور کی کوڑی بھی لائی گئی کہ راج ٹھاکرے کے امیدوار ایکناتھ شندے کی پارٹی کے نشان ’تیر کمان‘ پر الیکشن لڑیں گے، اس طرح وہ دوبارہ اپنے گھریعنی شیوسینا میں لوٹ آئیں گے، اس کے بعد راج ٹھاکرے کو شیوسینا میں شامل کرکے انہیں پارٹی کا صدر بنا دیا جائے گا۔ اس طرح شیوسینا کو ٹھاکرے گھرانہ اور بی جے پی کو ٹھاکرے گھرانے والی شیوسینا دوبارہ مل جائے گی۔ لیکن یہ باتیں بھی میڈیا کے ذہن کی اختراع ثابت ہوئیں۔ درحقیقت بی جے پی کی جانب سے راج ٹھاکرے کو این ڈی اے میں شامل کرنے کی کوئی تجویز نہیں تھی، غالبا ً راج ٹھاکرے نے خود خواہش ظاہر کی تھی کیونکہ مراٹھی میڈیا میں اس بات کو بھی خوب مشہور کیا گیا کہ راج ٹھاکرے کے دہلی پہنچنے کے ۱۴؍ گھنٹے بعد امیت شاہ نے انہیں ملاقات کا موقع دیا۔ اس پر بھی پہلے ونود تائوڑ ے نے آکر ہوٹل میں ان سے ملاقات کی۔ ان سے کچھ باتوں پر مفاہمت ہونے کے بعد شاہ نے راج ٹھاکرے کو اپنے گھر بلایا۔ اس کے بعد ایک ’شرط‘ کے بعد انہیں واپس بھیج دیا۔ 
  دراصل بی جے پی کا اپنا جائزہ یہ ہے کہ راج ٹھاکرے بھلے ہی شعلہ بیان مقرر ہوں اور ان کے جلسوں میں بھیڑ جمع ہوتی ہو لیکن ان کے پاس ووٹوں کا تناسب بالکل نہیں ہے۔ ایسی صورت میں ان سے اتحاد کرنا بی جے پی کیلئے کارگر نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف جہاں شیوسینا (شندے) اور این سی پی (اجیت) ایک ایک سیٹ کیلئے کھینچ تان کر رہے ہیں، وہاں راج ٹھاکرے کو ۲؍ سیٹیں دیدینا امیت شاہ کیلئے مہنگا سودا ثابت ہوتا۔ لہٰذا بہت کم امکان ہے کہ کہ ایم این ایس اور بی جے پی کے درمیان کوئی اتحاد ہو۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا بھی اس معاملے میں پوری طرح سے خاموش ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ۱۰؍ اپریل کو گڑی پاڑوا کے جلسے میں را ج ٹھاکرے کی تقریر کے بعد اس معاملے پرسے پردہ اٹھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK