Inquilab Logo

الیکشن گاہ ایک تماشہ گاہ بھی ہے

Updated: May 14, 2024, 1:33 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

اس بار یہ تماشہ نظر آ رہا ہے کہ ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں بی جے پی کا وہ زور نہیں ہے، جو پچھلے الیکشن میں دیکھا گیا تھا۔ پھربھی اس بار ایک مدراس شہر کے علاوہ بی جے پی نے ہر شہر یعنی دہلی، کلکتہ اوربمبئی میں اپنی جیت کا پرچم لہرا دیا تھا۔اِ س بار ایسی کامیابی کا امکان نظر نہیں آرہا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

اس بار کالم ہم اس وقت لکھ رہے تھے جب ہندوستان کے عام انتخابات کا تیسرا دور بھی ختم ہو چکا ہے۔ تیسرے دور میں  ۹۳؍ نشستوں  کا چنائو ہوا ہے، اس طرح ۲۸۲ ؍سیٹوں  کے الیکشن ختم ہو چکے ہیں ۔ اس بارکے چناؤکےبعد پارلیمنٹ کی تقریباً نصف سیٹوں  کے انتخابات مکمل ہو چکے ہیں ،اس بارا یک یہ تماشہ بھی نظر آ رہا ہے کہ ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں  میں  بی جے پی کا وہ زور نہیں    ہے، جو پچھلے الیکشن میں  دیکھا گیا تھا۔ پھربھی اس بار ایک مدراس شہر کے علاوہ بی جے پی نے ہر شہر یعنی دہلی، کلکتہ اوربمبئی میں  اپنی جیت کا پرچم لہرا دیا تھا۔ ان تمام شہروں  میں  کانگریس کا تو جیسے نام ونشان تک مٹ چکا تھا، کانگریس کو تمام ملک میں کل جمع ۴۰؍ سیٹیں  ملی تھیں ، ان میں  بڑے شہروں  کی ایک بھی سیٹ شامل نہیں  تھی، ایک بنگلور نے کچھ آنسو پونچھ دیئے تھے۔ دیکھیں  اس دفعہ کیا ہوتا ہے۔ 
 ایک اور بات بھی دیکھی گئی تھی۔ شمالی ہندمیں  تو کانگریس کا نام ہی مٹ چکا تھا۔ اسے جو سیٹیں  ملی تھیں  وہ جنوب میں  ملی تھیں ۔  گجرات میں  بھی کانگریس کا سوتاخشک تھا، یو پی میں  جو کہ کانگریس کا ایک مضبوط قلعہ تھا، اس کی صرف رائے بریلی کی سیٹ رہ گئی تھی اور وہ بھی اس لئے کیونکہ سونیا گاندھی وہاں  سے الیکشن لڑی تھیں ، راہل گاندھی امیٹھی کی سیٹ ہار گئے تھے۔یار لوگوں  نے وہاں  کانگریس کی فاتحہ بھی پڑھ لی تھی۔ یہ سمجھ میں  نہیں  آرہا تھا کہ کانگریس کا انجام کیا ہوگا  لیکن جیسا کہ یہ الیکشن گاہ ایک تماشہ گا بھی ہے۔ 
 یہ صورت کبھی نہیں  ہوتی اگر راہل گاندھی کو اچانک یاترا کی نہیں  سوجھتی ۔کئی ہزار کلو میٹرکا پیدل سفر طےکرنا کانگریس کے لئے ایک بہتر عمل ثابت ہوا، کہنے کو  یہ یاترا تھی اور ہندوستان میں  یاترائیں  کوئی انہونی بات نہیں  ہوتیں ۔ آزادی سے پہلے کانگریس نے دُنیا کی ایک بڑی طاقت برطانیہ کو یاتراؤں  سے ہی ہلاکررکھ دیا تھا۔ نمک یاترا نے تو ہندوستان میں  ایک نئی تاریخ رقم کرد ی تھی لیکن دھیرے دھیرے یاترائیں  بھی اپنا رنگ کھونے لگی تھیں ، وجہ یہ تھی کہ یاترائیں  عام ہو گئی تھیں ۔ ہر معاملہ میں  کوئی نہ کوئی پارٹی ایسی یاترائیں کرنےلگی تھی،  لیکن راہل کی پدیاترا نے اس بار جیسےہندوستان میں  تاریخ رقم کردی تھی۔ کم و بیش چار ہزار کلومیٹر کی پدیاترا جس میں  ہندوستان کی امنگوں  کو طے کرنا تھا اس کا نظریہ بھی واضح تھا۔شروع میں  کسی کو توقع نہیں  تھی کہ عوام اس یاترا کا ساتھ دیں  گے اور اس کا کچھ اثر بھی ہوگا لیکن جیسے جیسے یاترا آگے بڑھتی گئی ملک بھرمیں  اس یاترا کو مثبت جواب ملنے لگا ۔
 کچھ ہی دنوں  کے بعد ایسا لگنے لگا کہ اس یاترا نے کانگریس کی بنیاد مضبوط کردی ہے۔ کانگریس میں  ایسے دانشمند لوگ موجود ہیں  جو یہ سمجھتے تھے کہ کامیابی عوام سے ملتی ہے اور عوام کانگریس سے دور ہوگئے ہیں  مگر  اس یاترا نے ملک میں  سیاست کا چہرہ ہی بدل دیا۔ دانشور طبقہ کانگریس سے ہٹ کردور چلا گیا تھا،لیکن جب راہل نے قلی کے لباس میں  اور قلیوں  کے ساتھ بیٹھ کر باتیں  کیں  اور کسانوں  کی طرح ٹریکٹر چلایا تو لوگوں  کو یہ معلوم ہوا کہ کانگریس میں  اب بھی جان ہے اور وہ اپنے حالات کو بہتر کرسکتی ہے۔ 
 ہندوستان میں  سیاست کے بارے میں  آپ نہیں  جانتے کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ جموں  کشمیر کا وہ آفیسر کہا ں ہے جسے گرفتار کرلیا گیاتھا ۔ لیکن بعد میں  اسے ضمانت بھی مل گئی تھی، اب وہ کہاں  ہے اور کیا کررہا ہے خدا جانے ۔ یہی حال پلوامہ کا ہے، اس نے بی جے پی کو وہ ووٹ دلا ئے کہ بی جے پی الیکشن دھوم دھام سے جیت گئی۔ لیکن یہ صورت بھی بہت دنوں  تک نہیں  رہی۔ اس کے بعد پاکستان کے ایک نام نہاد دہشت گرد اڈے پر ہندوستان نے ہوائی جہاز سے حملہ کیا ، جی ہاں  وہی حملہ جس کے لئے مودی جی نے ہوابازوں  کے مستعد افسروں  کے درمیان میں  بیٹھ کر فرمایا تھا کہ اگر گھٹائیں  ہوں  تو دشمن ہمارے جہاز اور میزائل نہیں  دیکھ پائے گا، لیکن اس حملے کے بعد پاکستان نے بھی جواب دیا اور ان کے جہازوں  کا پیچھا کرتے وقت ہمارے دو جہاز ضائع ہوئے اور ایک جہاز تو پاکستان ہی میں  گر گیا اور ابھینندن گرفتار ہوا، خیر سے وہ دو دنوں  کے بعد انٹر نیشنل دباؤ کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد پلوامہ کا زور بالکل ختم ہو گیا۔ اس کے بعد مودی اور امیت شاہ نے دفعہ ۳۷۰ ؍ ہٹانے کی تجویز پاس کی۔ ا سکے چند ہی دنوں  کے بعد چین نے ہندوستان کی  کئی ہزار کلومیٹر زمین پر قبضہ کر لیا۔
 خیال کیا جاتا ہے کہ مودی جی جو کبھی اپنی تقریروں  میں  ہندی کی ایک کویتا کا انش سناتےتھے کہ یہ دیس نہیں  بکنے دوں  گا،بالکل ہی بےکارنکلا۔ دوسرا، ان کے دور میں  آج کئی ہزار کلو میٹر زمین چین نے قبضے میں  لے لی، اس کے بعد بی جے پی بلکہ مودی جی نے راشٹر واد کا نعرہ دیا تھا۔اور اب تو معاملہ اور بھی سنگین ہے، کووِڈکا دور تو ختم ہو گیا ، جس میں  مودی جی نے تمام ملک میں  ویکسین لگوا کر اور کووِڈگو گو کے نعرے لگائے تھے، اس دور میں  بھی راہل نے تنقید کی تھی لیکن ان کی بات پر کان نہ دھرا گیا۔ اور اب معلوم ہواہے کہ کووِڈ کے علاج کے لئے آدارپونہ والا نے جوانجکشن بنائے تھے، ان میں  بہت فائدہ نہیں  تھا، اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ اس وقت بھی ایک ڈاکٹر نے اس انجکشن سے دور رہنے کے لئے کہا تھا، جس کو فائدے کے لئے ٹال دیا گیا تھا، اب یہ معلوم ہوا ہے کہ آدار پونہ والا نے بی جے پی کے الیکٹورل فنڈ میں  رقم دے کر اس کالائسنس حاصل کیا تھا، یہ سب بعد کی چیزیں  ہیں ۔ 
 یہ بات ا ب عام ہندوستانی بھی جان چکا ہے، ان تمام باتوں  کے دوران الیکشن کا تیسرادور ختم ہوچکا ہے (واضح رہے کہ گزشتہ روز یعنی ۱۳؍ مئی کو چوتھے دور کی پولنگ مکمل ہوچکی ہے، یہ مضمون اس سے پہلے لکھا گیا ہے جیساکہ ابتدائی سطور میں  درج ہے)۔ اب الیکشن کا چوتھا دور باقی ہے، اب یہ دیکھنا باقی رہ گیا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔جو ۲۰۰۴ء میں  کانگریس کا ہوا تھا۔ اس تماشہ گاہ میں  ایک شوشہ یہ بھی چھوڑا گیا ہے کہ بی جے پی شمال میں  ہاف اور جنوب میں  صاف ہوجائے گی۔ الیکشن واقعی ایک تماشہ گاہ ہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK