Updated: October 24, 2025, 9:04 AM IST
| Geneva
عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ ’’ اقوام متحدہ یا اس کے اداروں کو غزہ میں امداد تقسیم کرنے یا دیگر امدادی کارروائی کرنے سے نیتن یاہو کی حکومت کو روکنے کا کوئی حق نہیں ہے ، عدالت کے مطابق عام شہریوں کو جان بوجھ کر بھوکا رکھنا نسل کشی کی ہی ایک قسم ہے
اسرائیل نے غزہ کو ہی تباہ نہیں کیا ہے بلکہ یہاں کے بچوں کا بچپن بھی چھین لیا ہے۔(تصویر: ایجنسی)
عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے اپنے ایک فیصلے میں واضح طور پر یہ رائے دی ہے کہ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (یو این آر ڈبلیو اے) اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذریعے غزہ کے فلسطینیوں میں امداد کی فراہمی اسرائیل کی ذمہ داری ہے۔ عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق عالمی عدالت انصاف نے اس معاملے میں اپنا دائرہ اختیار تسلیم کیا اور کہا کہ وہ اس کیس میں مشاورتی رائے دے سکتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ اسرائیل کسی بھی امدادی ادارے کو روکنے کا حق نہیں رکھتا ہے۔
عدالت نے نتیجہ اخذ کیا کہ اسرائیل کو یو این آر ڈبلیو اے اور اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کو امداد کی فراہمی میں تعاون کرنا چا ہئے اور نظامِ امداد تک رسائی کو آسان بنانا چاہیے۔ آئی سی جے کے ججوں نےکہا کہ اسرائیل اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے کے ملازمین کی بڑی تعداد حماس کے اراکین ہیں۔رواں سال اپریل میں اقوامِ متحدہ کے وکلاء اور فلسطینی نمائندوں نے عالمی عدالت میں اسرائیل پر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا کیونکہ اسرائیل نے مارچ سے مئی کے دوران غزہ میں امداد داخل ہونے سے مکمل طور پر روک دی تھی ۔ اس وقت اسرائیل نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ حماس کے جنگجو امداد لوٹ لیتے ہیں تاہم وہ یہ الزام عدالت میں ثابت نہ کر سکا۔عدالت کا مزید کہنا تھا کہ غزہ میں محصور افرادکو ناکافی خوراک فراہم کی جا رہی ہے جب کہ بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ممنوع ہے۔
فلسطینی نمائندوں کے وکیل پال رائیکلر نے کہا کہ یہ نتائج واضح کرتے ہیں کہ اسرائیل بین الاقوامی قانون کی اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کر رہا۔ خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے جو لاکھوں فلسطینیوں کو تعلیم اور امداد فراہم کرتی ہے کے ۳۰؍ ہزار سے زائد ملازمین ہیں۔اگرچہ مشاورتی رائے قانونی لحاظ سے قابلِ نفاذ نہیں ہوتی لیکن اس کی قانونی تشریح اثر و رسوخ رکھتی ہے اور بین الاقوامی برادری، اراکین ریاستوں اور دیگر عدالتوں کیلئے رہنمائی کا کام کرتی ہے۔ اس رائے کی وجہ سے اسرائیل کی سفارتی اور قانونی پوزیشن پر خاص طور پر اُس کی بین الاقوامی ساکھ اور عسکری کارروائیوں کے جائز ہونے پر اثر پڑ سکتا ہے۔فلسطینیوں اور ان کے حمایتی ممالک کو ایک قانونی فتح کا ذریعہ مل سکتا ہے جو آئندہ ثالثی، مذاکرات یا بین الاقوامی فیصلہ سازی میں موزوں ہو سکتی ہے۔ اسرائیل سماعت میں برا ہِ راست شریک نہیں تھا البتہ اس نے عدالت کے دائرۂ اختیار اور قانونی کارروائی کو سیاسی اور جانب دار قرار دیا۔ تاہم عدالت کی معاون صدر جج جو لیا سیبوتنڈے نے اس مشاورتی رائے کے خلاف اختلافی رائے درج کی۔
اس کے ساتھ ہی عالمی عدالت انصاف نے اپنی تاریخی مشاورتی رائے میں تصدیق کی کہ غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے اقدامات، جنیوا معاہدوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ عدالت نے اپنی رائے میں کہا ہے کہ عام شہریوں کو جان بوجھ کر بھوکا رکھنا، نسل کشی پر مبنی اقدامات کے مترادف ہے۔