Inquilab Logo

غزہ میں ہرعمر کے بچے اسرائیلی فوجیوں کا نشانہ ہیں: فلسطینی ریٹرن سینٹر

Updated: March 13, 2024, 5:37 PM IST | Jerusalem

برطانیہ پر مبنی ایک ادارے فلسطینی ریٹرن سینٹر نے اقوام متحدہ کو بتایا کہ غزہ میں تقریباً ہر عمر کے بچے اسرائیلی فوجیوں کا نشانہ ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں ہزاروں بچوں کے جسمانی اعضاء ناکارہ ہوگئے ہیں جبکہ وہ ایسے زخموں کا سامنا کر رہے ہیں جو ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ یونیسیف کے مطابق غزہ کے ۱۷؍ ہزار بچے یا تو اپنے والدین سے جدا یا تنہا ہو گئے ہیں۔

Children of Gaza during the Israeli occupation. Image: X
اسرائیلی جارحیت کے دوران غزہ کے بچے۔ تصویر: ایکس

غزہ، مغربی کنارہ اور یروشلم میں اسرائیلی فوجیوں کےبچوں کے ساتھ سلوک پر برطانیہ پر مبنی فلسطینی ریٹرن سینٹر نے اقوام متحدہ (یو این) کو اپنی رپورٹ میں کہا کہ غزہ میں ہر عمر کے بچے اسرائیلی فوجیوں کا نشانہ ہیں۔ ادارے نے نشاندہی کی گئی کہ رپورٹ لکھے جانے تک غزہ میں ہلاک شدہ بچوں کی تعداد ۱۲؍ ہزار سے زائد ہو چکی تھی جبکہ ہزاروں بچوں کے جسم کے اعضاء ناکارہ ہو گئے ہیں اور وہ موت کی تکلیف جیسی چوٹوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی افواج نے ہر عمر کے فلسطینی بچوں کو نشانہ بنایا ہے جبکہ فلسطینی اسکولوں کو اسرائیلی جارحیت کے سبب اپنے نصاب پہلے مکمل کرنے پڑے ہیں اور غزہ کے تقریباً تمام اسکول خواتین، بچوں اور مردوں کیلئے پناہ گاہ بن گئے ہیں جنہیں اسرائیل نے نقل مکانی پر مجبور کیا ہے۔ ان اسکولوں میں سے متعدد اسکولوں کو اسرائیل نے فضائی حملوں میں تباہ کیا ہے جبکہ اسرائیل نے اب بھی اسکولوں کو نشانہ بنانے کی اپنی کارروائی جاری رکھی ہے۔ 

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج منظم طریقے سے فلطینی بچوں کو مقبوضہ مغربی کنارہ میں حراست میں لے رہی ہے جس کے نتیجے میں جنگ کے آغاز سے اب تک ۲۰۰؍ بچوں کی حراست عمل میں آ چکی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مغربی کنارہ، جس میں مشرقی یروشلم بھی شامل ہے، میں غزہ کے بچے جن مصیبتوں سے گزر رہے ہیں انہیں جنگ کے پس منظر میں دھندلایا نہیں جا سکتا جبکہ یہ جنگ کا اہم حصہ ہے۔

یونیسیف کے مطابق فلسطینی خطے میں اسرائیل کی نسل کشی کی کارروائیوں کے دوران ۱۷؍ ہزار ایسے بچے ہیں جو یا تو تنہا ہو گئے ہیں یا اپنے اہل خانہ سے الگ ہو گئے ہیں۔اس ضمن میں یونیسیف کے چیف کے ترجمان جیمس ایلڈر نے بتایا تھا کہ جب ہم بچوں پر جنگ کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ڈرامائی نہیں بننا چاہئے۔یہ ڈیٹا میں موجود ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ پہلے کی عام جنگوں پر یہ شرح ۲۰؍ فیصد تھی جبکہ جاری جنگ میں ہلاک ہونے اور زخمی ہونے والے بچوں کی تعداد گزشتہ برسوں میں ہوئی جنگوں کی تعداد سے دگنا ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK