Inquilab Logo

اوڑھنی اسپیشل: کاش، مَیں اُس نصیحت پر عمل کرتی؟

Updated: May 02, 2024, 1:42 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

We often regret not following the advice of elders. Photo: INN.
بڑوں کی نصیحت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہمیں اکثر پچھتانا پڑتا ہے۔تصویر: آئی این این۔

....کہ کبھی ہمت نہیں ہارنا


زندگی ایک ایسی سیڑھی ہے جس پر بہت محتاط ہو کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی سیدھی راہ پرچلتے ہوئے اچانک کوئی ایسا موڑ آجاتا ہے جہاں ہم ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کسی نے مجھے نصیحت کی ہو۔ ہاں! بچپن میں امی ہر بات پر کچھ نہ کچھ ضرور کہتیں، جیسے: ناکامی سے نہیں ڈرنا چاہئے، ناموافق حالات پر صبر کرنا چاہئے، وقت ایک سا نہیں رہتا، کبھی ہمت نہیں ہارنا، ہر حال میں رب کا شکر ادا کرکے آگے بڑھنا، پیچھے مڑ کر کبھی نہیں دیکھنا، جو مل گیا وہ تمہارا ہے اور جو نہیں ملا اس کے بارے میں سوچنا چھوڑ دو۔ اور ایسی ہی بہت سی باتیں وہ کہہ دیتیں۔ میں ان سب باتوں کو اپنے دامن میں سمیٹی رہی اور الحمدللہ آج بھی ان پر عمل پیرا ہوں۔ لیکن کبھی کبھی وقتی طور پرکچھ ایسا ہوجاتا ہے کہ صبر کا دامن چھوٹتا معلوم ہوتا ہے، ہمت ٹوٹ جاتی ہے تو لگتا ہے کہ شاید میں امی کی اس بات پر پوری شدت سے عمل نہیں کر پائی ہوں کہ کبھی ہمت نہیں ہارنا۔
فردوس انجم (بلڈانہ، مہاراشٹر)
قلم کو اپنی طاقت بنالو
میرے استاذ محترم شیخ نیاز طیب پوری نے دوران تعلیم طالبات سے مختصرمضمون طلب کیا، میرا مضمون پڑھنے کے بعد مجھے نصیحت کی کیا کہ: ’’لکھا کرو۔ تم اچھا لکھتی ہو۔ قلم کو اپنی طاقت بنا لو۔‘‘
 اس وقت کی میری غیرسنجیدہ طبیعت اس نصیحت پر عمل کرنے سے قاصر رہی مگر ان کی نصیحت ہمیشہ یاد رہی اور ایک طویل مدت کے بعد قلم اٹھایا، ’’دیر آید درست آید‘‘ کے مصداق میں نے لکھنا شروع کیا اور میرا پہلا مضمون روز نامہ انقلاب کے ’’اوڑھنی‘‘ صفحہ پر شائع ہوا جس سے مجھے بہت حوصلہ ملا۔
اگرچہ اپنے استاذ کی نصیحت پر فوری طور پر عمل نہیں کیا جاسکا نتیجہ افسوس کے علاوہ کچھ نہیں ہے مگر میرے خیال سے اگر کسی بھی کام کو کرنے کا عزم مصمم کرلیا جائے تو نصف کامیابی اس پختہ ارادے ہی سے حاصل ہوجاتی ہے۔
ایم ممتاز اعظمی (اعظم گڑھ، یوپی )
اکثر جیسے ہم ہوتے ہیں ویسے دنیا نہیں ہوتی


اس بات کا تجربہ مجھے وقت کے ساتھ ساتھ بخوبی ہوتا جارہا ہے۔ اور میں زندگی کے ایسے مرحلے سے گزر چکی ہوں جہاں پر مجھے یہ نصیحت ہمیشہ ہر لمحہ میرے ذہن میں گونجتی رہتی ہے کہ ہم جیسے ہوتے ہیں دنیا ویسے نہیں ہوتی بلکہ دنیا صرف اور صرف فریب اور شرافت کا لبادہ اوڑھے کھڑی ہے۔ اُس کا حقیقی چہرا اور ہے۔ بعض دفعہ اس نصیحت پر عمل نہ کرنے کے سبب دل آزاری ہوتی ہے۔ ساتھ ہی پچھتاوا بھی ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ذہنی اذیت اٹھانی پڑتی ہے اور دل سے ہمیشہ یہی صدا آتی رہی سوائے اللہ کے ہر کوئی اس دنیا میں مطلب سے جُڑا ہے اور سوائے اللہ کے کوئی سچا ساتھی نہیں ہے۔ اللہ آزمائشوں اور مصیبتوں کے ذریعے ہمیں بتاتا ہے کہ اے بندے! سوائے میرے کوئی تیری پکار پر لبیک نہیں کہے گا اور سوائے میرے دنیا میں کوئی بنا مطلب تجھ سے محبت نہیں کرے گا۔
آفرین عبدالمنان شیخ (شولاپور، مہاراشٹر)
امّاں کی بات کو اَن سنی کردی


ہماری زندگی میں متعدد ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کے سبب ہمیں افسوس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں بارہویں کے امتحان سے فارغ ہوئی تو امی نے مجھے سلائی سیکھنے کا مشورہ دیا اور نصیحت کی کہ سلائی کڑھائی کا ہنر بہت ضروری ہے اور بہت کارآمد بھی۔ ہمیشہ حالات ایک جیسے نہیں ہوتے اس لئے ہنر مند ہونا ضروری ہے۔ گھر بیٹھے حیا اور پردے میں رہ کر سلائی کرنا آمدنی کا بہترین ذریعہ ہے۔ برے حالات میں ہنر اپنے کام آتا ہے۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس وقت میں نے ان کی بات کو اَن سنی کردیا اور اب سوچتی ہوں تو پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اب احساس ہوتا ہے کہ کاش میں ان کی اس نصیحت پر عمل کرتی۔
خان نرگس سجاد (جلگاؤں، مہاراشٹر)
جھوٹ بولنے کی عادت
بچپن میں بہت بہانا کرتی تھی۔ امی ابو نے لاڈ پیار کی وجہ سے کبھی نہیں ٹوکا۔ ہاں دادی ایسا کرنے سے منع کرتی تھیں۔ پھر میں جھوٹ بولنے لگی۔ پہلے ان کی نوعیت معمولی تھی مگر بعد میں معاملہ طول پکڑتا گیا۔ اب افسوس ہوتا ہے، کاش! دادی کی نصیحت پر عمل کرتی۔
ن انصاری(ممبئی)
اور میرا چھوٹا بھائی گھر سے غائب ہوگیا


بچپن میں ننھیال جانے کا موقع مل جاتا تھا اور سبھی خالہ زاد ماموں زاد بھائی بہن جمع ہوتے تھے۔ ہم سبھی نانا کو کہانی سنانے کیلئے کہتے۔ نانا دن میں کہانی نہیں سنانا چاہتے تھے مگر میری ضد کی وجہ سے انہوں نے یہ کہہ کر کہ ’’اب اگر کوئی راستہ بھول گیا تو تم اس کی ذمے دار ہوگی....‘‘ کہانی سنا دی اور اسی دن میرا چھوٹا بھائی گھر سے غائب ہوگیا۔ سبھی بھائی بہن مجھے کہنے لگے اور دن میں کہانی سنو، اسی وجہ سے تمہارا بھائی راستہ بھول گیا۔ اب نہ جانے کہاں ڈھونڈا جائے۔ پولیس میں رپورٹ درج کروائی گئی۔ میں بہت افسردہ ہوگئی کہ میری وجہ سے میرا بھائی گم گیا۔ کاش میں نانا کی نصیحت پر عمل کرتی تو ایسا نہیں ہوتا۔ شام کو پولیس چوکی سے بلاوا آیا کہ کوئی لڑکا ملا ہے آکر دیکھ لیں تو میرے ماموں گئے اور بھائی کو لے کر گھر آئے تو سب نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
اپنے راز بتانا مہنگا پڑا
مجھے زیادہ بولنے کی عادت ہے۔ اس عادت کی وجہ سے اکثر گھر کے سارے معاملات دوسروں تک پہنچا دیتی ہوں۔ ایک مرتبہ باتوں ہی باتوں میں ایک راز بتا دیا۔ بس پھر کیا تھا گھر میں بڑا ہنگامہ ہوا۔ بات کافی بڑھ گئی تھی۔ اس وقت مجھے بے حد افسوس ہوا۔ اس معاملے کی وجہ سے گھر کے حالات پیچیدہ ہوگئے تھے۔ آپس میں دوریاں پیدا ہوگئی تھیں۔ کئی مہینے بعد حالات بہتر ہوئے۔ میری اس عادت کی وجہ سے اکثر امّاں ٹوکتی تھیں کہ تم باتوں ہی باتوں میں کچھ بھی کہہ جاتی ہو۔ ذرا اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔ مذکورہ بالا واقعہ ہونے کے بعد مجھے اس بات کا شدید احساس ہوا کہ امّاں کی نصیحت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اب اُن کی نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
ایس نسرین (بھیونڈی، تھانے)
مجھے ان کی بات کی اہمیت کا احساس نہ ہوا


بچپن ہی سے مَیں کھانے پینے کی چور رہی ہوں۔ میری دادی ہمیشہ کہتی تھیں بیٹا اچھی طرح کھایا کرو، یہ کھایا پیا ہی آگے کام آتا ہے مگر کم عمری میں مجھے ان کی بات کی اہمیت کا احساس نہ ہوا۔ پھر شادی کے بعد بچوں کی ولادت ہوئی تب زچگی کے وقت میرے والدین مجھے بار بار صحت بخش غذا کھانے پر اصرار کرتے لیکن مَیں اپنی عادت سے مجبور تھی لہٰذا میں نے ان کی کسی نصیحت پر کان نہ دھرے۔ اب جیسے جیسے عمر بڑھ رہی ہے اپنی بیوقوفی کا احساس ہورہا ہے، مقوی غذائیں نہ لینے کی وجہ سے ہڈیاں وقت سے پہلے کمزور ہوگئی ہیں۔ اٹھنے بیٹھنے میں تکلیف ہوتی ہے۔ جوڑ جوڑ درد کرتا ہے۔ اور اب شدت سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ کاش مَیں نے اپنے بڑوں کی نصیحت مان لی ہوتی تو مجھے اتنی زیادہ تکالیف کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
رضوی نگار اشفاق (اندھیری، ممبئی)
بھائی بہنوں کی غلطی پر پردہ ڈالنا
بھائی بہنوں میں بڑی تھی اس لئے ہمیشہ اُن کی غلطیوں پر پردہ ڈال دیتی تھی۔ اس کی وجہ سے اُن میں کئی بری عادتیں پیدا ہوگئیں۔ والدین مجھے اکثر کہتے تھے کہ اُن کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے سے ان کا ہی نقصان ہوگا۔ لیکن یہ بات مجھے دیر سے سمجھ میں آئی۔ مَیں نے نادانی میں اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ ساتھ اپنا بھی نقصان کیا۔ کاش! وقت رہتے مَیں نے والدین کی نصیحت سن لی ہوتی تو شاید صورتحال مختلف ہوتی۔
مومن روزمین (تھانے)
کاش میں نے زندگی کی دی ہوئی نصیحت پر عمل کیا ہوتا


ہماری زندگی کئی اتار چڑھاؤ سے ہو کر گزرتی ہے۔ صرف انسان ہی نہیں زندگی اور حالات بھی ہمیں کئی بار نصیحت دیتے ہیں، جسے ہم نظر انداز کردیتے ہیں۔ میری زندگی نے بھی مجھے بار بار نصیحت دی، ہر کسی پر اعتبار نہیں کرنے کی۔ میں نے ہر بار زندگی کی دی ہوئی نصیحت پر غور نہیں کیا۔ جس نے مجھ سے جو کہا میں اسے سچ مانتی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے اپنی مرضی کے مطابق مجھے استعمال کیا۔ جس نے میرے یقین کو ٹھیس پہنچائی، میرا دل دکھایا اور میں خواہ مخواہ ہی پریشان ہوتی رہی۔ آج اس بات کا مجھے احساس ہو گیا ہے کہ کاش! اگر میں نے زندگی کی نصیحت پر عمل کیا ہوتا تو میں خود کو بے وجہ کی پریشانیوں میں مبتلا ہونے سے محفوظ رکھ سکتی تھی۔
ہما انصاری ( مولوی گنج لکھنو)
ماں باپ کی بات ٹالنے کا خمیازہ
کبھی بھی اپنے ماں باپ کی بات کو نہیں ٹالنا چاہئے کیونکہ اس میں اللہ کی طرف سے خیر ہوتی ہے۔ زندگی میں ایک مرتبہ میں نے بھی اپنی امی کی بات کو ٹال دیا کہ چلو بعد میں دیکھیں گے کہہ کے مگر اس کا نتیجہ آج تک مجھے بھگتنا پڑھ رہا ہے اور پتہ نہیں کب تک بھگتنا پڑے گا۔ بس اب تو اللہ ہی خیر وہ عافیت کرے۔ 
قریشی فردوس (کلبرگی ، کرناٹک)
خاموش رہنا ایک مشکل کام
یوں تو زندگی میں ہم نے بہت سی کتابیں پڑھیں۔ حدیث نبویؐ سے لےکر کئی ناول بھی پڑھے مگر سوچتے ہیں کاش اس پر کچھ عمل کر لئے ہوتے۔ زندگی گزارنے کے اصول تو ازبر ہیں مگر عمل پیرا ہونے میں کوتاہی کر دیتے ہیں۔ ہماری ماں نے ہمیں سدا یہ نصیحت کی کہ کم بولا کرو، خاموشی میں خیر ہے مگر ہم بہت بولتے ہیں۔ کاش اس نصیحت پر عمل کرتی تو زندگی حسین ہوتی۔
میرے و الد ہمیشہ ہمیں حسن اخلاق پر چلنے کی نصیحت کرتے ہیں اس پر ہم عمل بھی کرتے ہیں مگر خاموش رہنا ہمیں آتا ہی نہیں۔ کبھی کوشش کرتی ہوں تو سامنے والا عاجز کر دیتا ہے پھر شروع ہو جاتی ہوں۔ کاش میں اس نصیحت پر عمل کرتی تو کتنے نقصان سے بچ جاتی۔
ایمن سمیر (اعظم گڑھ، یوپی)
ایک اچھا اسکول کھول سکتی تھی


تین دہائیوں قبل کچھ احباب نے آبائی وطن کو مکمل طور پر نہ چھوڑنے اور وہاں رہائشی علاقے میں تھوڑی زمین خریدنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس وقت میں سرکاری اسکول میں ٹیچر کی ملازمت کر رہی تھی۔ اس دور میں زمین کی قیمت کافی کم تھی اور ہمارے دوست احباب مشورہ دیتے تھے کہ ہم معاشرے سے جو حاصل کرتے ہیں ہمیں اپنی طرف سے کچھ اس کو لوٹانا بھی چاہئے لہٰذا آگے چل کر ایک پرائمری اسکول قائم کیا جاسکتا تھا۔ آج دیکھتی ہوں کہ زمین کی قیمت آسمان چھو رہی ہے۔ آج چاہتے ہوئے بھی اچھا اسکول شروع کرنے کے لئے زمین خرید پانا بے حد مشکل ہوگیا ہے۔ آج سوچتی ہوں کہ کاش احباب کی اس نصیحت پر عمل کر لیا ہوتا تو وقت رہتے ہوئے ایک اچھے اسکول کی شروعات کی جاسکتی تھی جو اب مشکل ہوگیا ہے۔
سلطانہ صدیقی (جامعہ نگر، نئی دہلی)
’’ مکمل طور پر کسی پر انحصار نہ کرنا....‘‘


ایک بڑی اچھی نصیحت جو میرے استاد محترم نے کی تھی وہ یہ تھی کہ، ’’کبھی مکمل طور پر کسی پر انحصار نہ کرنا کہ خود کچھ نہ کرسکو۔‘‘ یہ مجھے اس لئے یاد ہے کہ آج میں اپنے شوہر پر پوری طرح منحصر ہوں، یہاں تک کہ میری بچیاں بھی ہر وقت مجھے کہتی ہیں کہ آپ نے اپنی ڈور ڈیڈی کے ہاتھوں میں دیدی۔ کتنی خواتین کی یہ حسرت ہوگی کہ ان کے شوہر نامدار سب کچھ کریں، وہ ہر باہری مسئلے سے بری ہوں۔ الحمدللہ اپنی اس خوش قسمتی پر مجھے ناز ہے۔ لیکن مجھے اپنی غلطی کا احساس حال ہی میں ہوا ہے، کہ چند پیچیدہ حالات کی بنا پر مجھے انٹرنیشنل سفر تنہا کرنا پڑا، کسی بھی سفر میں مجھے کچھ سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی بس ان کی پیروی کی۔ لیکن اب جب سر پر پڑی تو منہ سے نکلا کہ کاش میں ان پر اتنا منحصر نہ ہوتی، خود کو لعنت ملامت بھی کی کہ تعلیم یافتہ، ملازمت پیشہ ہونے کے باوجود ایک خوف اندرونی طور پر پنہاں تھا کہ سفر خیریت سے گزر جائے۔
خاندان کے لوگ، دوست، حلقہ احباب سبھی فکر مند تھے کے رضوانہ پہلی بار کہیں تنہا سفر کر رہی ہے، حالانکہ ملازمت کے لئے روزانہ امبرناتھ سے گھاٹکوپر جانا ہوتا تھا، لیکن ملا کی دوڑ مسجد تک کا معاملہ تھا۔ کاش میں نے اس نصیحت کو گرہ میں باندھ لیا ہوتا تو آج میرے منزل مقصود تک پہنچنے تک سب کی جان سولی پر نہ لٹکی ہوتی۔
رضوانہ رشید انصاری (بلجیم)

اگلے ہفتے کا عنوان: گرمی کی چھٹیوں میں بچوں کو مصروف رکھنے کے کیا طریقے ہوسکتے ہیں؟ 
اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK