Inquilab Logo

ایران پر حملے کیلئے اسرائیلی پارلیمنٹ میں بجٹ منظور

Updated: October 20, 2021, 8:06 AM IST | Tel Aviv

تہران کی ایٹمی تنصیبات نشانے پر۔ ڈیڑ ھ ارب ڈالر کے بجٹ میں جنگی طیاروں، ڈرون اور دیگر ہتھیار خریدنے کی تیاری۔ امریکہ کے بنائے ہوئے جی بی یو ۷۲؍بموں کی خریداری کا امکان۔ ماہرین کی نظر میں بجٹ کا اعلان ایران کو جوہری مذاکرات میں شریک ہونے پر مجبور کرنے کی صہیونی کوشش

Israel has been pushing for an attack on Iran
اسرائیل ،ایران پر حملے کیلئےمسلسل پرتول رہا ہے

اسرائیل نے ایران پر حملے کیلئے کمر کس لی ہے۔ تہران کو نیوکلیئر ہتھیاروں کو حاصل کرنے سے روکنے کے بہانے  اس پر حملے کی تیاری کے طور پر صہیونی ریاست نے  بجٹ کا اعلان بھی کر دیا ہے بلکہ اسے منظور بھی کر لیا گیا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے   ایران کی ایٹمی تنصیبات پرمُمکنہ حملے کی خاطر اپنی فوجی صلاحیت میں اضافے کیلئے۱ء۵؍ارب ڈالر کے بجٹ کو منظوری دے دی ہے.اس بجٹ میں مختلف قسم کے ہتھیارجن میں جنگی طیارے، ڈرون طیارے، خفیہ معلومات کاحصول اور ایسے ہتھیاروں کا حصول شامل ہے جو ایران کی جوہری صلاحیت کی فول پروف اور زیرزمین تنصیبات کو نشانہ بنا سکیں۔
 واضح رہے کہ امریکہ اس وقت ایران کے ساتھ مذاکرات پر زور دے رہا ہے تاکہ اسے جوہری معاہدے میں واپس لایا جائے اور   یورنیم کی افزودگی کم کرنے پر مجبور کیا جائے۔ دوسری طرف اسرائیل باربار ایران پر حملہ کرنے پر اصرار کر رہا ہے۔ اب تک اس نے زبانی دھمکیوں کا استعمال کیا لیکن اب پارلیمنٹ میں بجٹ کی منظوری کے بعد اس نے جنگ کا واضح اشارہ دیدیا ہے۔ ایران کیلئےمنظور کیا گیایہ بجٹ ۲۰۲۱ء اور ۲۰۲۲ءکیلئے مختص ہے۔ رواں برس اس بجٹ میں سے ۶۰؍ فی صد حصہ اور آئندہ سال کیلئے ۴۰؍ فی صد حصہ تقسیم کیا جائے گا۔
  یاد رہے کہ اسرائیل نے بجٹ کی منظوری کا اقدام  ایسے وقت میں کیاہے  جب حال ہی میں امریکہ نے جی بی یو۔۷۲؍بموں کے کامیاب تجربات کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ بم زیر زمین اور انتہائی مضبوط عمارتوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان بموں کو ایف۔۱۵؍ ایگل بھاری جنگجو طیاروں سےگرایا جا سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل  ایران کے خلاف انہی طیاروں کا استعمال کرے گا۔ اسرائیلی حکومت کی ایک رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ یہ بم ایرانی ایٹمی سائٹس پر حملے میں استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ حالانکہ اسرائیل کے پاس اس وقت ایف ۱۵؍ اسٹرائیک ایگل طیارے نہیں ہیں جو جی بی یو۔۷۲؍ جیسے بموں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاسکیں۔
 لیکن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے ۲۰۰۹ء میں خفیہ طورپر اسرائیل کو چھوٹے ماڈل  کے جی بی یو ۲۸؍بم فروخت کئے تھے۔ البتہ یہ معلوم نہیں ہوا ہے کہ اس بم  میں انتہائی مضبوط تنصیبات کو توڑنے کی صلاحیت موجود ہے یا نہیں۔موجودہ رپورٹ کے مطا بق جی بی یو ۷۲؍بموں کےنئے امریکی تجربات ایران کیلئے وارننگ ہیں۔ یاد رہے کہ امریکہ کے علاوہ فرانس سمیت یورپی یونین میں شامل کئی ممالک ایران پر اس بات کیلئے زور دے چکے ہیں کہ وہ  جوہری مذاکرات  میں دوبارہ شامل ہو جو کہ کچھ عرصہ پہلے بعض شرائط پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی ہو گئے تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کا ایران کے خلاف دفاعی بجٹ کو منظوری دینا دراصل تہران پر دبائو ڈالنے کا ایک حربہ بھی ہے تاکہ اسے  ویانا مذاکرات میں سنجیدگی کے ساتھ شرکت پر مجبور کیا جاسکے اور مذاکرات سے فرارکے خطرات اور نتائج سے خبردار کیا جا سکے۔
  واضح رہے کہ ستمبر میں اسرائیلی آرمی چیف جنرل کوچاوی نے کہا تھا کہ تل ابیب نے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی تیاری مزید تیز کردی ہے۔انہوں نے کہا  تھاکہ دفاعی بجٹ کا ایک بڑا حصہ اس مقصد کیلئے مختص کیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے بھی کہا تھا کہ ’’ایران کا ایٹمی پروگرام فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ’’ الفاظ سینٹری فیوجزکو نہیں روک سکتے۔ ہم خود ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکیں گے۔‘‘ واضح رہے کہ امریکہ حالانکہ ایران کے معاملے کو سفارتکاری سے حل کرنے کی بات کرتا آیا ہے لیکن اس  نے اکثر ’دیگر متبادل‘ کے موجود ہونے کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ حال ہی میں   اسرائیلی وزیر خارجہ یایئر لبید سے ملاقات  کے دورن  امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن  نے بھی کہا تھا کہ ’’ہمارے پاس تمام متبادل کھلے  ہوئےہیں۔‘‘
 فی الحال ایران کی جانب سے اسرائیل کے اس اقدام کے بعد کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن اس سے قبل کئی بار ایران اسرائیل کو حملے کی صورت میں ’منہ توڑ‘ جوابی کارروائی کی تنبیہ کر چکا ہے۔  ادھر ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری مذاکرات کی بھی ہامی بھری ہے لیکن وہ پہلے امریکی پابندیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔ سردست اسرائیل کے اس اعلان نے حالات کو مزیدکشیدہ کر دیا ہے۔ 

israel Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK