سپریم کورٹ نے بنگالی بولنےو الے مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر حراست میں لیکرانہیں بنگلہ دیش میں دھکیلنے پر ناراضگی کا اظہار کیا، زبان کی بناء پر لوگوں کو بنگلہ دیشی بتانے پر مرکز سےجواب طلب، سماجی تنظیموں نے حاملہ خاتون کا معاملہ اٹھایاجسے بنگلہ دیش میںدھکیلے جانے کےبعد گرفتارکیا گیا
سپریم کورٹ میں جمعہ کو ہونیوالی سماعت میں پرشانت بھوشن اور تشار مہتا میں تلخ کلامی بھی ہوئی ۔فائل فوٹو
بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو حراست میں لے کر انہیں زور زبردستی بنگلہ دیش میں دھکیلنے کے واقعات کے خلاف سول سوسائٹی کی تنظیموں کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نےزبان کی بنیاد پر لوگوں کو بنگلہ دیشی قرار دینے پر مرکزی حکومت سے تلخ سوال کیا۔ عدالت عظمیٰ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ محض زبان کی بنیاد پر کسی کو غیر ملکی قرار نہیں دیا جاسکتا۔عدالت کو یہ بتایا گیا کہ کس طرح بی ایس ایف کے اہلکار بندوق کی نوک پراس طرح کے لوگوں میں بنگلہ دیش میں دھکیل رہے ہیں۔ عدالت نے مرکزی حکومت سے اس معاملہ میں ایک ہفتہ کے اندر جواب طلب کرتے ہوئے کلکتہ ہائی کورٹ کو حکم دیاکہ سونالی بی بی کو عدالت کے روبرو پیش کئے جانے سے متعلق عرضی پر آزادانہ طریقہ اور تیز رفتاری سے سماعت کی جائے۔
دہلی،این سی آر سمیت بی جے پی حکومت والی متعدد ریاستوں میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو محض ان کی زبان کی بنیاد پر نشانہ بنائے جانے اور انہیں حراست میں لے کربنگلہ دیش میں دھکیلے جانے کے اہم معاملہ پر جمعہ جکو سپریم کورٹ میں جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جوئےمالیا باغچی اور وپل ایم پنچولی کی بنچ کے سامنےسول سوسائٹی کی تنظیموں کی عرضداشتوں پر سماعت عمل میں آئی۔ سینئر ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے بنچ کو بتایا کہ کس طرح ایک حاملہ خاتون کو کسی کارروائی کے بغیر بنگلہ دیش کی طرف دھکیل دیا گیا، وہاں بھی اس خاتون کو ہندوستانی ہونے کی بناءپر گرفتار کرلیا گیاہے۔
سماعت کے دوران جسٹس باغچی نے مرکزی حکومت سے یہ سوال کیا کہ آیا شہریت کا فیصلہ کسی شخص کی زبان کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے؟انہوںنے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا کو مخاطب کرتے ہوئےکہا’’ہم آپ سے تعصب کو واضح کرنا چاہتے ہیں ،کیا زبان کے استعمال کی بنا ء پرکسی کے غیر ملکی ہونے کا تصور کیا جاسکتا ہے؟‘‘اس موقع پر بھوشن نے بنچ کو بتایا کہ بی ایس ایف کے حکام کسی قانونی طریقہ کار پر عمل پیرا ہوئے بغیر لوگوں کو ملک بدر کر رہے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ ہائیکورٹ میں بازیابی کی درخواست دائرکے باوجود ایک حاملہ خاتون کو زبردستی ملک سے باہر دھکیل دیا گیا۔وہ کہہ رہے ہیں کہ بنگالی زبان بنگلہ دیشی زبان ہے، اسلئے بنگالی بولنے والے بنگلہ دیشی ہیں۔انہوںنے بنچ سے سوال کیا کہ کوئی بھی اتھاریٹی کسی کی شہریت کا تعین کئے بغیر کسی کو باہر کیسے دھکیل سکتی ہے؟
پرشانت بھوشن نے زور دے کر کہا کہ کسی بھی اتھاریٹی کو کسی شخص کی شہریت کا تعین کرنے والے ٹریبونل کے حکم کے بغیر ملک بدر کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔جب جسٹس کانت نے کہا کہ غیرملکیوں کا ٹربیونل صرف آسام میں موجود ہے،اس پرپرشانت بھوشن نے کہا کہ بی ایس ایف کے اہلکار اپنے طورپرکارروائی کررہے ہیں۔وہ بسا اوقات ایسے لوگوں سے کہتے ہیں کہ تم اس طرف بھاگو نہیں تو ہم تمہیں گولی ماردیں گے۔اس پر جسٹس باغچی نے اپنے مشاہدہ میں کہا کہ جو بھی شخص ہندوستان کی حدود میں پایا جائے اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جانا چاہیے۔
مرکزی حکومت کی طرف سے پیش تشار مہتا نے سول سوسائٹی کی تنظیموں کی عرضداشتوں پر اعتراض کرتے ہوئے متاثرہ افراد کے نہ ہونے کا حوالہ دیا۔انہوں نے مرکزی حکومت کے قدم کا دفاع کرتےہوئے کہا کہ ہندوستان غیر قانونی تارکین وطن کے لیے دنیا کا دارالحکومت نہیں،لیکن اس پر جسٹس باغچی نے کہاکہ قومی سلامتی کے خدشات زبان جیسے شناختی نشانات پر مبنی مفروضوں کا جواز نہیں بن سکتے۔ انہوںنے کہا کہ دو انتہائی حساس مسائل ہیں۔ ایک ہماری قومی سلامتی ہےاور اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں لیکن دوسری چیز مشترکہ ثقافت کی وراثت ہے۔ ہم اخباری رپورٹس کی بنیاد نہیںکہتے ہیں، ہمیں اس پر واضح موقف چاہئے۔بھوشن نے کہا کہ ہزاروں لوگوں کو محض اس لئے حراست میں لیا جارہاہے کیونکہ وہ بنگالی بول رہے ہیں۔اس درمیان بھوشن کی تشار مہتا سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔