Inquilab Logo Happiest Places to Work

سپریم کورٹ کا سنبھل شاہی جامع مسجد تنازع میں موجودہ صورتحال برقرار رکھنے کا حکم

Updated: August 22, 2025, 10:05 PM IST | Lukhnow

سپریم کورٹ نے جمعے کو اتر پردیش کے سنبھل میں واقع شاہی جامع مسجد،شری ہری ہر مندر تنازع میں مسلم اور مقابل فریقین کو اگلی سماعت تک موجودہ صورت حال برقرار رکھنے کا حکم دیا۔

The Shahi Jama Masjid in Sambhal, Uttar Pradesh. Photo: INN
اتر پردیش کے سنبھل میں واقع شاہی جامع مسجد۔ تصویر: آئی این این

سپریم کورٹ نے جمعے کو اتر پردیش کے سنبھل میں واقع شاہی جامع مسجد،شری ہری ہر مندر تنازع میں مسلم اور مقابل فریقین کو اگلی سماعت تک موجودہ صورت حال برقرار رکھنے کا حکم دیا۔ جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس اٹل ایس چندورکر کی بینچ مسجد کمیٹی کی جانب سے دائر کی گئی ایک خاص درخواست (ایس ایل پی) پر سماعت کر رہی تھی، جس میں الہٰ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی گئی تھی جس میں مسجد کے سروے کے لیے چاندوسی کورٹ کے حکم کی توثیق کی گئی تھی۔ایس ایل پی میں الہٰ آباد ہائی کورٹ کے اس ابتدائی موقف پر بھی اعتراض کیا گیا تھا کہ یہ مقدمہ عبادت گاہ ایکٹ ۱۹۹۱؍کے تحت ممنوع نہیں ہے، کیونکہ اس میں قدیم یادگاریں اور آثار قدیمہ کے مقامات اور باقیات ایکٹ ۱۹۵۸ءکے تحت متنازع جائیداد تک رسائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔جب مقابل فریق نے یہ دلیل دی کہ عدالت عظمیٰ کی ایک اور بینچ نے فیصلہ دیا ہے کہ اے ایس آئی کے زیر تحفظ یادگار، عبادت گاہ ایکٹ کے دائرہ کار میں نہیں آتی، تو جسٹس نرسمہا کی سربراہی میں بینچ نے وکیل وشنو شنکر جین سے کہا کہ وہ مذکورہ حکم ریکارڈ پر پیش کریں اور معاملہ کو پیر تککے لیے سماعت کے لیے ملتوی کر دیا۔

یہ بھی پڑھئے: جمعیت علمائے ہند کا آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما کو ہٹانے کا مطالبہ

اس دوران، عدالت عظمیٰ نے فریقین سےمسجد کے حوالے سے موجودہ صورت حال برقرار رکھنے کو کہا۔اپنے مذکورہ حکم میں، الہٰ آباد ہائی کورٹ نے اس سول نظر ثانی درخواست کو خارج کر دیا تھا جس میں ٹرائل کورٹ میں زیر التواء کارروائیوں پر روک لگانے کی درخواست کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ ہندو فریق کی جانب سے مسجد کے نیچے ہری ہر مندر ہونے کے دعوے کے بعد شاہی جامع مسجد ایک قانونی تنازع کا مرکز بن گئی ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں، مغلیہ دور کی مسجد کے کورٹ کے حکم کردہ سروے کے دوران سنبھل میں احتجاج کے دوران کم از کم چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔عدالت عظمیٰ نے پہلے ہی ٹرائل کورٹ کی کارروائیوں پر روک لگا دی تھی، یہ ہدایت کرتے ہوئے کہ الہٰ آباد ہائی کورٹ کے مسجد کمیٹی کی درخواست کا جائزہ لینے تک کوئی مزید اقدام نہ کیا جائے۔۱۹؍ مئی کو الہٰ آباد ہائی کورٹ کے حکم جاری کیے جانے کے بعد، سنبھل ڈسٹرکٹ کورٹ میں سروے سے متعلق معاملات کے آگے بڑھنے کی توقع کی جا رہی تھی۔مسجد کمیٹی نے دلیل دی کہ سروے کا حکم جلد بازی میں دیا گیا تھا، بغیر انہیں سنوائی کا موقع دیے۔ انہوں نے اس حقیقت پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ مسجد کا دو بار سروے کیا گیا — پہلی بار حکم کے دن اور دوبارہ۲۴؍ نومبر کو، جب پر تشدد احتجاج ہوا تھا۔تاہم، الہٰ آباد ہائی کورٹ نے ان دلائل کو خارج کر دیا تھا اور ٹرائل کارروائیوں میں مداخلت سے انکار کر دیا تھا۔ مقابل مدعیوں بشمول وکیل ہری شنکر جین اور سات دیگر کا دعویٰ ہے کہ مسجد ہری ہر کے نام سے وقف ایک قدیم مندر کے کھنڈرات پر کھڑی ہے، جسے ان کے الزام کے مطابق۱۵۲۶ء میں مغل شہنشاہ بابر کے حکم سے جزوی طور پر گرایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے: ’’پولیس کو زعفرانی یا ہرا رنگ اختیار نہیں کرنا چاہئے‘‘

اے ایس آئی نے کہا کہ شاہی جامع مسجد ایک مرکزی طور پر محفوظ شدہ یادگار ہے اور اسے عوامی عبادت کی جگہ کے طور پر نہیں بیان کیا جا سکتا، کیونکہ ایسی دعوے کی حمایت کے لیے کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK