سپریم کورٹ نے دور رس اثرات کے حامل اپنے فیصلہ میں گرفتاری کی تحریری بنیادوں کوگرفتار شدگان کی زبان میں فراہم کرنے میں ناکامی پرگرفتاری اور اسکے بعد کی ریمانڈ کو غیر قانونی قرار یا،کہا: گرفتار شدگان کی زبان میں انہیں تحریری وجہ فراہم نہ کرنے سے آئین ہند کے آرٹیکل ۲۲؍ کے تحت آئینی التزام پورا نہیں ہوتا
سپریم کورٹ کی بینچ نے ہٹ اینڈ رن معاملے کی شنوائی کے دوران مذکورہ بات کہی
سپریم کورٹ نے اپنے ایک اہم مشاہدہ میں گرفتاری کی تحریری بنیادوں کوگرفتار شدگان کی زبان میں فراہم کرنے میں ناکامی پرگرفتاری اور اس کے بعد کے ریمانڈ غیر قانونی قرار یا۔عدالت عظمیٰ نے اس اہم فیصلے میں جس کے نہ صرف دورس اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس سے ملک میں ناخواندہ اور نیم خواندہ افرادکو بھی فائدہ پہنچے گا کیونکہ پولیس وانتظامیہ کیلئےگرفتارشدگان کوان کی گرفتاری کی تحریری وجہ خود ان کی زبان میں بتانی ہوگی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ گرفتار شدگان کی زبان میں انہیں تحریری وجہ فراہم نہ کرنے سے آئین ہند کے آرٹیکل ۲۲؍ کے تحت آئینی التزام پورا نہیں ہوتا۔ گرفتار شدگان کی سمجھ میں آنے والی زبان میں اس طرح کی بنیادوں کی فراہمی میں ناکامی آئینی تحفظات کو گمراہ کرتی ہے اور اس شخص کی ذاتی آزادی کی خلاف ورزی کرتی ہےجس کی ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل۲۱؍اور آرٹیکل ۲؍ کے تحت ضمانت دی گئی۔
اپنے اہم فیصلے میں، سپریم کورٹ نے گزشتہ روز آئی پی سی؍بی این ایس کے تحت تمام جرائم پر لاگو کرنے کے لیے تحریری طور پر گرفتاری کی بنیاد فراہم کرنے کا حکم دیا۔یہ پہلے صرف پی ایم ایل اے یا یواے پی اے جیسے خصوصی قوانین کے تحت ہی فراہم کئے جاتے تھے۔ چیف جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ نے کہا کہ کسی گرفتارشدہ کو تحریری طور پر گرفتاری کی بنیاد فراہم کرنے میں ناکامی، جس زبان کو وہ سمجھتا ہے، گرفتاری اور اس کے بعد کا ریمانڈ غیر قانونی قرار دیاجائے گا۔
عدالت نے کہا کہ گرفتاری کی بنیاد کے بارے میں گرفتارشدہ کو مطلع کرنے کا آئینی مینڈیٹ تمام قوانین کے تحت تمام جرائم میں لازمی ہے۔ ایسی صورت میں جہاں گرفتاری کرنے والا افسرگرفتاری کے بعد یا جلد ہی گرفتاری کی وجہ تحریری طور پر بتانے سے قاصر ہے،وہ زبانی طور پر گرفتاری کی وجہ بتائے گا۔ مذکورہ بنیادوں کو ایک مناسب وقت کے اندر تحریری طور پر بتایا جائےاور کسی بھی صورت میں مجسٹریٹ کے سامنے ریمانڈ کی کارروائی کے لیے گرفتار شدہ کو پیش کرنے سے کم از کم دو گھنٹے پہلےیہ فراہم کیا جانا چاہئے۔سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ مذکورہ بالاحکم کی تعمیل نہ کرنے کی صورت میں، گرفتاری اور اس کے بعد ریمانڈ کو غیر قانونی قرار دیا جائے گا اور اس شخص کو رہا کرنے کی آزادی ہوگی۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ ممبئی کے ایک ہائی پروفائل ہٹ اینڈ رن واقعہ میں دیا ہے۔ بامبے ہائی کورٹ نے قبل ازیں گرفتاری میں طریقہ کار کی خامیوں کو تسلیم کیا تھا لیکن جرم کی سنگینی اور درخواست گزار کی حراست سے بچنے کی مبینہ کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دینے سے انکار کر دیا تھا۔اپنی گرفتاری کو غیر قانونی قرار نہ دینے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ آیا گرفتاری کی بنیادوں کے بارے میں تحریری طور پر مطلع کرنا ضروری ہے اور اگر ایسا نہیں کیاگیا تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔درخواست گزار کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے، جسٹس مسیح کی طرف سے لکھے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ گرفتاری کی بنیادوں کے بارے میں کسی گرفتاری کو مطلع کرنا آرٹیکل ۲۲(۱) کے تحت ایک بنیادی حق ہے، جو آرٹیکل ۲۱؍کے تحت ذاتی آزادی کی ضمانت سے نکلتا ہے۔یہ محض رسمی نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ گرفتار شخص پولیس حراست کو چیلنج کرکے ضمانت کی درخواست دے سکتا ہے۔