Inquilab Logo

جہانگیر پوری تشدد :پولیس کے رول کی جانچ کی ضرورت

Updated: May 09, 2022, 9:49 AM IST | Inquilab News Network | New Delhi

دہلی کی عدالت نےکہا کہ پولیس کی ذمہ داری بلا اجازت نکالے گئےجس جلوس کوروکنا تھی وہ اسی کے ساتھ چل رہی تھی، خاطی افسران کو جوابدہ بنانے پر زور دیا

The situation in Jahangirpuri is still not normal and police are deployed..Picture:INN
جہانگیر پوری میں حالات اب بھی پوری طرح معمول پر نہیں آئے ہیں اور پولیس تعینات ہے۔ تصویر: آئی این این

): دہلی کے جہانگیر پوری میں ہنومان جینتی کے موقع پر نکالے گئے غیر قانونی جلوس کے دوران فساد پھوٹ پڑنے کے معاملے میں دہلی پولیس کا رول جانچ کے دائرے میں آگیا ہے۔ اس معاملے کے ۸؍ ملزمین کی  ضمانت کی درخواست کو مستر دکرتے ہوئے دہلی کے  روہنی علاقے میں واقع عدالت  کے ایڈیشنل سیشن جج گگن دیپ سنگھ نے  اس معاملے میں  پولیس اہلکاروں کی ملی بھگت کی جانچ اوران کی جوابدہی طے کرنے کی ضرورت پر زور دیاہے۔ 
غیر قانونی جلوس کو روکا کیوں نہیں گیا
  گزشتہ دنوں سنائے گئے اپنے فیصلے میں  جس کا تفصیلی آرڈر اب سامنے آیا ہے، کورٹ نے   دہلی پولیس کمشنر سے اس ضمن میں جواب طلب کیا ہے۔ غیر قانونی جلوس کو روکنے کے بجائے اس کے ساتھ چلنے والے پولیس اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے کورٹ نے کہا ہے کہ ’’متعلقہ افسران کی ذمہ داری طے کی جانی چاہئے تاکہ مستقبل  ایسا کوئی واقعہ نہ ہو اور غیر قانونی سرگرمیوں کو نہ روکنے میں  پولیس ملوث نہ ہو۔‘‘ کورٹ نے اس سلسلے میں  اعلیٰ افسران کی بے توجہی پر بھی ناراضگی کااظہار کیا اور کہا کہ ’’ ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ یوں ہی نظر انداز کردیاگیا۔‘‘ عدالتی فیصلوں پر تفصیلی رپورٹ  فراہم کرنے والی ویب سائٹ ’لائیو لاء ‘کے مطابق کورٹ نے کہا ہے کہ ’’ان افسران کی اگر کوئی ملی بھگت ہے تواس کی بھی جانچ ہونی چاہئے۔‘‘
  کورٹ نے جہانگیر پوری تشدد کے کیس میں ماخوذ کئے گئے امتیاز، نور عالم، شیخ حامد، احمد علی، شیخ حمید، ایس کے شہادا، شیخ ذاکر اور اہیر کی ضمانت کی عرضیاں خارج کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر سے یہ بات واضح ہے کہ فساد کا سبب بننے والا جلوس غیر قانونی تھا۔ 
 ایف آئی آر انتظامیہ کا اقبال جرم
  جج نے کہا کہ ’’حکومت کی جانب سے  یہ اعتراف کیا گیاہے کہ آخری جلوس جو فساد کے وقت گزررہاتھا، غیر قانونی تھا اوراس کے پاس پولیس  کی کوئی  پیشگی اجازت نہیں تھی۔ ‘‘ کورٹ نے ۱۶؍  اپریل کو پیش آنے والے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ایف آئی آر خود بتارہی ہے کہ جہانگیر پوری پولیس اسٹیشن کا عملہ جس کی قیادت انسپکٹر راجیو رنجن کررہے تھے، ’’مذکورہ غیر قانونی جلوس کے ساتھ چل رہاتھا۔‘‘ایڈیشنل سیشن جج گگن دیپ سنگھ   نے کہا کہ ’’ایسالگتا ہے کہ مقامی پولیس جس کی ذمہ داری تھی کہ جلوس کو شروع ہوتے ہی روک دیتی  اور بھیڑ کو منتشر کردیتی،  پورے راستے  اس کے ساتھ چلتی رہی۔ یہی جلوس بعد میں  سماج کے دو فرقوں میں فساد کا سبب بنا۔‘‘
 ملزمین کو ضمانت دینے سے انکار
  کورٹ  نے پولیس کو ذمہ دار ٹھہرانے کے   باوجود ضمانت کی عرضی داخل کرنے والے ملزمین  کی عرضی خارج کردی۔ عدالت نے کہا کہ زیر غور معاملے میں جانچ ابھی چل ہی رہی ہے اور ابھی کئی مفرور ملزمین کو گرفتار کیا جانا ہے۔ جج گگن دیپ سنگھ    نے پولیس کے اندیشوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’استغاثہ کو خطرہ ہے کہ ملزمین چونکہ  علاقے   کے معروف جرائم پیشہ افراد ہیں  اسلئےان کے خلاف عوام گواہی دینے سے ڈریں گے۔‘‘ کورٹ نے کہا کہ چونکہ اس مرحلے میں گواہوں کے اس خوف کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ،ا بھی چارج شیٹ بھی داخل ہونا باقی ہے اس لئے ملزمین کو ضمانت پر رہا نہیں کیا جاسکتا۔ 
 یاد رہے کہ جہانگیر پوری میں ۱۶؍ اپریل کو ہنومان جینتی کے موقع پر نکالے گئے جلوس کی جانب  سے مبینہ اشتعال انگیز  ی کے بعد فساد پھوٹ پڑا تھا۔ الزام ہے کہ جلوس میں شامل افراد نے اس وقت مسجد میں داخل ہونے اور بھگوا لہرانے کی کوشش کی  جب مسلمان افطاری میں مصروف تھے۔  پولیس پر الزام ہے کہ خاطیوں کو گرفتار کرنے کے بجائے وہ مسلمانوںکو ہی نشانہ بنارہی ہے جبکہ انتظامیہ نے  مقامی مسلمانوں کے گھر بھی منہدم کئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK