Inquilab Logo

برائے مہربانی یہ نہ سوچیں کےسبھی غیر مسلم آپ کے خلاف ہیں

Updated: May 23, 2022, 10:52 AM IST | Saadat Khan | Mumbai

سیکولر دانشوروںکی جانب سے پریس کلب میں منعقدہ عیدملن پارٹی میں ملک کی موجودہ صو رتحال پر معروف سینئر صحافی جیوتی پنو انی کا اظہار خیال۔مختلف تنظیموں کے نمائندوں اور معزز شخصیات نے بھی شرکت کی ، کہا : مایوس کن حالات میں نااُمید ہونےکی ضرورت نہیں بلکہ متحد ہوکر صبر و تحمل سے حالات کوبدلنےکی کوشش کی جانی چاہئے

Participants can be seen at the Eid-ul-Fitr program held at the Press Club. Picture:INN
پریس کلب میں منعقدہ عیدملن پروگرام میں شرکاء کو دیکھا جاسکتا ہے۔ تصویر: آئی این این

 سینئر صحافی جیوتی پنوانی ، ایڈ وکیٹ اور سماجی رضاکارصنوبر کیشور ، پروفیسر نندنی مانجریکر اور سابق پروفیسر وریجندرا کی جانب سے سنیچرکو سی ایس ایم ٹی پر واقع پریس کلب میں عید ملن پارٹی کا انعقاد کیا گیاجس میں ملک کے موجودہ حالات پر شرکاء نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی یہ پیغا م دیاکہ مایوس کن حالات میں نااُمید ہونےکی ضرورت نہیں ہے بلکہ متحد ہوکر صبر و تحمل سے موجودہ حالات کو بدلنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ پروگرام میں مختلف تنظیموں کے نمائندےاور معزز شخصیات بھی شریک تھیں۔  اس موقع پر جیوتی پنوانی نے کہاکہ ’’ یہ عید ملن پارٹی ایک خاص مقصد کے تحت منعقدکی گئی ہے ۔ملک کے موجودہ حالات نے ہمیں سر جوڑکر بیٹھنے پر مجبور کیا ہے ۔ دراصل راج ٹھاکرے نےجب لائوڈ اسپیکر پر پابندی لگانےکی مہم شروع کی تھی تومیں نے کچھ لوگوںکا انٹرویو کیا تھا جن میں ممبئی کی ایک بڑی مسلم شخصیت نے کہاتھاکہ راج ٹھاکرے اور لائوڈ اسپیکر کے معاملہ پر تو ہم قابو پالیں گے مگر جب اذان پر بھی پابندی عائد کرنےکی مہم چلائی جائے گی تو کیاہوگا۔سمجھ میں نہیں آرہاہے ،ہم کس سے مدد کیلئے کہیںکیونکہ آج کل مسلمانوںکی بات کہیں نہیں سنی جارہی ہے۔ چینلوں پر ابھی سے اذان بندکرنےکا پروپیگنڈہ شروع ہوگیاہے۔ علاوہ ازیں مسلمانوںپر ظلم و ستم کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے۔ کھرگون اس کی ایک مثال ہے جہاں مسلمانوں کےگھروںپر بلڈوزر چلایا گیا  مگر کوئی اسے روکنے کیلئےسامنے نہیں آیا۔مسلمانوںکے ساتھ جو کچھ ہورہاہے ،اسے دیکھ کر دیگر لوگ خوش ہیں۔ان کے یہ کہنے پر میں نے ان سے سوال کیا کہ کون خوش ہے جس پر انہوںنےکہاکہ کسی سیاسی پارٹی نے مسلمانوںپر   ظلم کے خلاف کہاں آواز اُٹھائی ؟ میں نے ان سے کہاکہ آپ سیاسی پارٹی سے کیوں اُمید رکھتےہو۔ان کا ا پنا  ایجنڈا ہے۔ میں نے پھر ان سے سوال کیاکہ کیا آپ کو لگتاہےکہ عام لوگ بھی خوش ہیں ؟ اس پر انہوںنے کہاکہ پہلے تو کچھ لوگ اس طرح کے حالات میں ہمارے لئے احتجاج کیا کرتے تھے ۔ انہیں دیکھ کر محسوس ہو تاتھاکہ کچھ لوگ ہمارے ساتھ ہیں مگر اب ایسا نہیں دکھائی دے رہاہے۔ اس لئے ایسا محسوس ہورہاہےجو کچھ ہورہاہے، اس سے سب خوش ہیں۔ان کی باتو ں سے مجھے شدید تکلیف ہوئی کہ مہاراشٹر کےمسلمان بھی اگر اس طرح سوچ رہےہیں تو اس میں کہیں نہ کہیں ہماری کوتاہی ہے۔‘‘انہو ںنے مزید کہاکہ ’’ ملک میں اکثریتی طبقے کی آبادی ۷۸؍فیصد ہے ۔  ایسے میں اقلیتو ںکے تحفظ اور ان کے حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ مسلمانو ں کے دلو ںمیں اگر اس طرح کے خیالات آرہےہیں تو اس کیلئے ہم شرمند ہ ہیں۔ میں ذاتی طورپر سمجھ رہی تھی کہ اُترپردیش ،مدھیہ پردیش اور کرناٹک کے مقابلے مہاراشٹر کا ماحول اچھا ہے اور یہاں کے مسلمان سکون سے ہیں ۔ لیکن مذکورہ شخص کی باتیں سننے کےبعد مجھے دکھ ہوا۔ اگر مہاراشٹر کامسلمان یہ سوچ رہاہے کہ وہ تنہا اور اکیلا ہے تو یہ ہماری غلطی ہے۔اس واقعہ کےبعد میں نے سوچاتھاکہ اس تعلق سے ایک میٹنگ رکھی جائے اور مسلمانوںکو یہ بتایاجائے کہ یہ سوچنا بالکل  غلط ہےکہ ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں۔ سرکارجو کر رہی ہے، ہم پوری طرح اس کے خلاف ہیں۔ہم اُسے آئین ، قانو ن اور انسانیت کے خلاف مانتے ہیں۔ یہ سرکار اور ان کے لیڈران ہمارے نہیں ہیں۔ یہ درست ہےکہ جن پر ظلم ہورہا ہے ۔انہیں ہم بچانہیںپا رہےہیں مگر انہیں اخلاقی اور قانونی حمایت ضروردیں گےلیکن برائے مہربانی یہ نہ سوچیں کہ سبھی غیر مسلم آپ کے خلاف ہیں۔اگر کچھ لوگ خاموش ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہےکہ جوکچھ ہورہاہے ، اس سے وہ خوش ہیں۔خاموشی کا مطلب حمایت نہیں ہے۔جوکچھ ہورہاہے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں ہماری ذمہ داری بنتی ہےکہ ہم سامنے آکر واضح طورپر کہیں کہ ہم مسلمانوںکے ساتھ ہیں۔ ‘‘
 کامریڈ واسو نےکہاکہ ’’ موجودہ سرکار کے خلاف آواز بلند کرنے والاسب سرکار کادشمن ہے۔اس سرکار نے صرف مسلمان کو نقصان پہنچا یاہے، ایسانہیں ہےبلکہ یہ سرکار تمام لوگوںکو نقصان پہنچا رہی ہے۔ میں ٹریڈ یونین لیڈر ہوں ۔ تمام ٹریڈیو نین ،کسان اور دیگر شعبوںکے لوگوں کو یہ سرکار ختم کررہی ہے۔ اس سرکار کی پالیسی سے صرف مسلمان نہیں بلکہ ہندو اور غریب عوام بھی بری طرح پریشان ہے۔ صرف کچھ لوگوںکو آگے بڑھنےکا موقع دیا جارہاہے۔گزشتہ ۸؍ سال میںملک کی حالت انتہائی ابتر بنادی گئی ہے۔ ان حالات سے نمٹنےکیلئے متحد ہوکر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔‘‘  قرطبہ فائونڈیشن کے صدر غلام عارف نے کہاکہ ’’میرا بنیادی سوال یہ ہےکہ کیا ظلم صرف مسلمانوںپر ہورہا ہے یا مسلمانوں کوصرف ذہنی طورپرہراساں کیا جارہا ہے۔دراصل ایک منظم سازش کے تحت مسلمانوں کوڈرا کر گرانےکی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اس کےبعد جوپورا ہندو ستان ہے۔ وہ جو ہزار سال سے جن کےساتھ ظلم ہورہا ہے ،انہیں صا ف کرنےمیں آسانی ہوگی۔‘‘سینئر ایڈوکیٹ سعید عریضی نے اپنی تقریر میں کہاکہ’’ اذان سے کسی کو دقت نہیں ہونی چاہئے ۔ ہمیں اپنے دماغ سے یہ بھی نکال دینا چاہئے کہ ہم خاص ہیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ ہم سب برابر ہیں ۔ہمیں سب کے ساتھ مل جل کر آگے بڑھناہے۔ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہوںگاکہ ہماری مساجد جواکثر اوقات خالی رہتی ہیں ۔ ان اوقات میں یہاں تعلیمی اور تعمیری خدمات انجام دی جائیںتو  بہتر نتائج اخذہوسکتےہیں۔‘‘  ایڈوکیٹ فرحانہ شاہ نے کہاکہ ’’آج جس طرح کا ماحول ہے،  ایسےمیں اگر ہم اپنے مذہب کو گھر پر ہی رکھیں تو متعدد مسائل حل ہوسکتےہیں۔جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو آپ مذہب کو اپنے مطا بق مانتے ہو۔آپ نماز اور قرآن یامندرجاکر پوجاکرتےہو تو اپنے لئے کرتے ہو، کسی اور کیلئے نہیںاس لئے اس کی تشہیر کرنےکی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بجائے متحدہوکر اگر ہم انسانیت کیلئے کام کریں تومثبت نتائج سامنے آئیں گے۔‘‘ اس کے علاوہ دائود خان، ایم اے خالد، ایڈوکیٹ الکا رائوت ، نورالدین نائک، شاہنواز تھانےوالا،عاکف دفعدار، سلیم صابووالا، منصور درویش، سلیم الوارے، فیروز میٹھی بوروالا، تاج قریشی اورفاروق ماپکروغیرہ نےبھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

mumbai Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK