• Tue, 25 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

نئے لیبر قوانین کیخلاف مزدور یونینوں کا ملک گیر احتجاج کااعلان

Updated: November 24, 2025, 10:50 PM IST | New Delhi

کل ہونےوالے اس احتجاج میں ملک کی ۱۰؍ اہم مزدور تنظیمیں حصہ لے رہی ہیں، انہوں نے نئے قوانین کو مزدوروں کیخلاف اور ان کے حقوق پر ڈاکہ قرار دیا ہے

On the occasion of Constitution Day on November 26, labor organizations have announced to fight for their rights.
۲۶؍ نومبر کو یوم آئین کی مناسبت سے مزدور تنظیموں نے اپنے حق کی لڑائی لڑنے کااعلان کیا ہے

ملک کی دس بڑی ٹریڈ یونینوں نے جمعہ کو مرکزی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ چار نئے لیبر قوانین کو ’مزدوروں کے ساتھ دھوکہ‘ قرار دیا۔ انہوں نے ان کی فوری منسوخی کا مطالبہ کیا اور بدھ یعنی ۲۶؍ نومبر کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ یہ یونینیں، جو زیادہ تر اپوزیشن جماعتوں سے وابستہ ہیں، گزشتہ ۵؍ برسوں سے ان قوانین کی مسلسل مخالفت کر رہی ہیں۔یہ چاروں لیبر کوڈ ۵؍ سال قبل پارلیمنٹ نے منظور کئے تھے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے برطانوی دور کے پیچیدہ قوانین کو آسان بنایا ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کیلئے ماحول  سازگار ہوگا۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے مزدوروں کو سماجی تحفظ بھی حاصل ہوگا اور  وہ کم از کم اُجرت سے بھی مستفید ہوں  گے۔ حکومت کے دعوؤں کے برعکس مزدور یونینوں کا کہنا ہے کہ یہ قوانین کمپنیوں کو آسانی سے ملازمین کو برطرف کرنے کی اجازت دیتے ہیں، جو مزدوروںکے حقوق  پر ڈاکہ کے مترادف ہے۔
 ماہرین کے مطابق پرانے قوانین  میں کی گئی ان تبدیلیوں سے اب فیکٹریوں میں شفٹیں لمبی ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح خواتین کو رات کی شفٹ میں کام کرنے کی  اجازت مل گئی ہے اور  ملازمین کی برطرفی کیلئے حکومتی منظوری کی حد۱۰۰؍ سے بڑھا کر ۳۰۰؍ کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے اور درمیانے درجے کی کمپنیوں کو پہلے سے کہیں زیادہ چھوٹ دی گئی ہے۔
 ابتدا میںکاروباری برادری ان تبدیلیوں سے کافی خوش تھی، کیونکہ وہ طویل عرصے سے  یہ کہتے رہے ہیں کہ پرانے قوانین مینوفیکچرنگ کو روکتے ہیں۔ خیال رہے کہ اِس وقت ملک کی تقریباً۴؍ٹریلین ڈالر کی معیشت میں مینوفیکچرنگ کا حصہ۲۰؍ فیصد سے بھی کم ہے۔ لیکن جیسے جیسے قوانین کے نکات سامنے آتے جارہے ہیں، اس سوچ میںتبدیلیاں بھی آرہی ہیں۔ اب تمام کاروباری  حکومت کے دعوؤںسے متفق نہیں ہیں۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباریوں کی تنظیم اسوسی ایشن آف انڈین انٹرپرینیورز نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نئے قوانین سے ان کے اخراجات میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا اور کئی شعبوں کے کاروبار میں خلل پڑے گا۔
 خیال رہے کہ حکومت نے ۵؍ سال قبل پارلیمنٹ کے منظور کردہ جن چار لیبر کوڈز کو ملک بھر میں نافذ کیا، ان کے نام کچھ اس طرح سے ہیں۔ اُجرت کا ضابطہ،صنعتی تعلقات کا ضابطہ،سوشل سیکوریٹی کوڈ اورپیشہ ورانہ حفاظت یعنی صحت اور کام کے حالات کا ضابطہ۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ کوڈ برطانوی دور کے فرسودہ لیبر قوانین کو آسان بنائیں گے، سرمایہ کاری کو فروغ دیں گے اور مزدوروں کو بہتر تحفظ فراہم کریں گے تاہم مزدور تنظیموں نے اسے حکومت کا ڈھونگ قرار دیتے ہوئے  الزام عائد کیا ہے کہ ان  قوانین میں مزدوروںکے بجائے کمپنیوں کے مفادات کا خیال رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مشترکہ بیان میں، دس مرکزی ٹریڈ یونینوں جن میں سی آئی ٹی یو،  ایچ ایم ایس، اے آئی ٹی یو سی، ایس ای ڈبلیو اے اور ایل پی ایف  کے نام قابل ذکر ہیں، نے کہا کہ یہ نئے کوڈ مزدوروں کے ساتھ دھوکہ ہیں۔ ان سے کمپنیوں کو بلا وجہ اپنے ملازمین کو برطرف کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ اسی طرح فیکٹریوں میں خواتین کیلئے ۱۲؍ گھنٹے کی شفٹوں میں کام کرنا اور خاص کر  رات کی شفٹوں میں کام کرنا ان کی صحت اور ان کے سماجی تحفظ کیلئے ایک خطرناک بات ہے۔یونینوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ۵؍ برسوں میں کئی بار ملک گیر ہڑتالیں کی گئی ہیں، لیکن حکومت نے ان کا کوئی بھی مطالبہ پورا نہیں کیا ہے۔ اب مزدوروں پر زبردستی قوانین مسلط کئے جا رہے ہیں جو اُن کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔
 خیال رہے کہ مرکزی حکومت نے۲۱؍ نومبر کو ۴؍ نئے لیبر کوڈز کو باضابطہ طور پر نافذ کردیا ہے۔  یہ چاروں لیبر کوڈ ملک کے موجودہ  تمام ۲۹؍ لیبر قوانین کااحاطہ کرتی  ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ اصلاحات ’آتم نِر بھر بھارت‘ کو مضبوط کریں گی، سرمایہ کاری کو راغب کریں گی اور۵۰؍ کروڑ سے زیادہ مزدوروں کو فائدہ پہنچائیں گی۔یہ نافذ کئے گئے قوانین، جو۲۰۲۰ء میں پارلیمنٹ میں منظور ہونے کے بعد سے ۵؍ سال تک معدوم تھے، اچانک نافذ ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے مزدور تنظیموں میں خدشات میں مبتلا ہوگئی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بہار الیکشن تک حکومت خاموش تھی لیکن نتیجہ ظاہر ہوتے ہی انہیں نافذ کردیا گیا۔

new delhi Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK