موسم کی تبدیلی کے سبب نہ صرف پیداوار میں کمی آئی بلکہ فصل بھی وقت سے پہلے ہو گئی۔ تاجروں کو حکومت سے اخروٹ کے کاروبار پر توجہ نہ دینے کی شکایت
EPAPER
Updated: September 14, 2022, 1:32 PM IST | Agency | Srinagar
موسم کی تبدیلی کے سبب نہ صرف پیداوار میں کمی آئی بلکہ فصل بھی وقت سے پہلے ہو گئی۔ تاجروں کو حکومت سے اخروٹ کے کاروبار پر توجہ نہ دینے کی شکایت
وادیٔ کشمیر میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے امسال اخروٹ کی پیداوار میں کافی کمی آئی ہے۔ وسطی کشمیر کے قصبہ چاڈورہ کے برنوار علاقے کے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ امسال اخروٹ کی فصل پندرہ روز پہلے ہی تیار ہوگئی۔ برنوار سے تعلق رکھنے والے چودھری دانش قانون کے طلب علم ہیں اور ان کا خاندان اخروٹ کی تجارت سے وابستہ ہے۔ دانش کہتے ہیں کہ امسال موسم وقت سے قبل ہی گرم ہو گیا اور اور بارش زیادہ ہوئی جسکی وجہ سے اخروٹ کی پیداوار میں کافی کمی واقع ہوئی۔نیز اخروٹ کی فصل بھی قبل از وقت ہی تیار ہوگئی۔چودھری دانش نے کہا کہ’’برنوار علاقہ وادی بھر میں نہ صرف اخروٹ کی بہترین کوالیٹی کیلئے مشہور ہے بلکہ اخروٹ کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لحاظ سے بھی میں یہ علاقہ وادی میں سر فہرست ہے لیکن امسال نا ساز صورتحال کی وجہ سے پیدوار کافی کم ہوگئی‘۔ دانش کا کہنا ہے کہ وادی میں ڈرائی فروٹ زون یا منڈی کی عدم دستیابی کی وجہ سے کاشتکاروں کو مارکیٹ میں اخروٹ کی اچھی قیمت نہیں مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہاں کاشتکاروں یا بیو پاریوں کو اخروٹوں کو ڈبوں میں پیک کرکے جموں منڈی بھیجنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جموں کی منڈی میں اخروٹ فی کلو کی قیمت دو سو روپے ہے جبکہ وہ خود چھ سے سات سو روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کرتے ہیں‘۔ دانش نے کہا کہ سال گزشتہ ملک کی مختلف ریاستوں کے بیوپاری برنوار آئے اور یہاں اخروٹ باغوں سے ہی اخروٹ خریدے جس کی وجہ سے کاشتکاروں کو اچھا فائدہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جموں میں اخروٹ فروخت کرنے کا فائدہ وہاں بیوپاریوں کو پہنچتا ہے کاشتکاروں کو نہیں۔کاشتکاروں کا مطالبہ ہے کہ کشمیر میں بھی فروٹ منڈی کے طرز پر ڈرائی فروٹ زون یا منڈی قائم کی جائے تاکہ اخروٹ اور بادام کے کاشتکاروں کی تجارت بھی ترقی کر سکے۔ دانش کا کہنا ہے کہ اگر یہاں بھی ایک ڈرائی فروٹ منڈی قائم کی جائے گی تو بیوپاری یہاں براہ ارست آکر اخروٹ خرید سکیں گے جس سے کاشتکاروں کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کاشتکار براہ راست بیوپاریوں کو اخروٹ فروخت نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ اس کے لئے ایکسپورٹ لائسنس کا ہونا لازمی ہے۔ فیاض احمد نامی ایک کاشتکار کا کہنا ہے نا ساز گار موسمی حالات سے اخروٹ کی پیدوار میں کمی واقع ہونے سے نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’میں نے جس درخت سے گزشتہ سال اخروٹ کے دس تھیلے اتارے تھے اس سال اسی درخت سے صرف چار تھیلے اتارے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے گاؤں برنوار کا اخروٹ نہ صرف سائز کے لحاظ سے بڑا ہے بلکہ ذائقے میں بھی سب سے اچھا ہے‘۔فیاض احمد نے کہا کہ ہم ایک ڈبے میں پانچ یا دس کلو اخروٹ پیک کرکے جموں بھیجتے ہیں جہاں ہم مشکل سے ہی فی کلو ۱۸۰؍ روپےکے ریٹ کے حساب سے فروخت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو مزدور درخت سے اخروٹ اتارتا ہے اس کی یومیہ مزدوری کم سے کم ۱۵؍ سوروپے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم الگ الگ درختوں کے اخروٹ الگ الگ ڈبوں میں پیک کرتے ہیں تاکہ کوالیٹی اچھی رہے ۔فیاض احمد کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برس سے کشمیر کے اخروٹوں کی مانگ میں کمی آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت اس سلسلے میں بھر پور توجہ نہیں دے رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہمارے پاس ڈرائی فروٹ منڈی نہیں ہوگی تب تک ہمارے اخروٹ کی قیمت اچھی نہیں رہے گی۔ کاشتکاروں نے حکومت سے کشمیر میں ڈرائی فروٹ منڈی قائم کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ کاشتکاروں کو جموں نہ جانا پڑے۔