Inquilab Logo

اردوزبان وادب ایک دن میں کئی صدموں شوکت حیات,شاہدعلی, مولابخشر,فہیم احمدکی رحلت

Updated: April 22, 2021, 8:53 AM IST | Patna

مشہور افسانہ نگار اور اپنے افسانوں کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں چھاپ چھوڑنے والے شوکت حیات کا یہاں ان کی رہائش گاہ پاٹلی پتر پر صبح ساڑھے دس بجے انتقال ہوگیا

Shaukat Hayat.Picture:PTI
شوکت حیات تصویرپی ٹی آئی

 مشہور افسانہ نگار اور اپنے افسانوں کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں چھاپ چھوڑنے والے شوکت حیات کا یہاں ان کی رہائش گاہ  پاٹلی پتر پر صبح ساڑھے دس بجے انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر  ۷۰؍ سال تھی۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ شوکت حیات کی تدفین کا ابھی وقت طے نہیں ہوا ہے۔ امکان ہے کہ جمعرات کو  ان کو پیرمنیہاری قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے گا۔ دسمبر۱۹۵۰ءمیں پیدا ہونے والے  شوکت حیات  ۷۰ءکی دہائی میں افسانہ نگاری کے میدان میں نمایاں ہوئے اور بہت جلد  اہم افسانہ نگاروں میں شامل ہوگئے۔ ان کے افسانوں میں سماج کی تلخ حقیقت اور سچائیاں ہوتی تھیں۔ انہوں اپنے افسانے کے ذریعہ سماج کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’گنبد کے کبوتر‘ شہرہ آفاق حیثیت رکھتا ہے۔ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈسے بھی نوازا تھا اور ساتھ ہی ان کو قومی کتھا ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ان کے انتقال  پر بہار نے ایک بہترین اور سماج کو آئینہ دکھانے والے افسانہ نگار کو کھو دیا ہے۔ 
 مشہور افسانہ نگار اور بہار اردو اکیڈمی کے سیکریٹری مشتاق احمد نوری نے  شوکت حیات کے انتقال پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اردو فکشن کی شوکت، شوکت حیات سن سترسے افسانہ نگاروں کی امامت کرنے والا’گنبد کے کبوتر‘ کا خالق اور انامیت کا اسیر ،فکشن کی آبرو کہلانے والا فکشن کا جادوگر ہمارے درمیان سے خاموشی سے چلا ہوگیا۔ وہ ایک عرصے سے بیمار تھے، محفلوں سے دور ہوتے  جارہے تھے اور لکھنا پڑھنا بھی بند تھا۔اپنے آپ میں گم رہنے لگے تھے لیکن اس کے قہقہے میں اب بھی جان تھی۔ کسے معلوم تھا کہ قہقہہ بکھیرنے والا اپنے دوستوں کو سسکیوں کے حوالے کرجائے گا۔معروف نقاد اور صاحب طرز ادیب حقانی القاسمی نے بھی شوکت حیات کے انتقال کوفکشن کا ایک ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ  شوکت حیات کے انتقال پر اظہار تعزیت کرنے والوں میں شمائل نبی،ڈاکٹر اسلم جاوداں،  ڈاکٹر انوارالہدیٰ  وغیرہ کے نام شامل ہیں ۔

مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ کے سابق جنرل منیجر اور نئی کتاب پبلشر کے روح رواں اور شاعروں، ادیبوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے شاہد علی خاں کا یہاں انتقال ہوگیا ۔ وہ کافی عرصے سے علیل تھے ۔ انتقال کے وقت ان کی عمر ۸۶؍ برس تھی۔ پسماندگان میں دو بیٹے اور  ایک بیٹی ہے۔ شاہد علی خاںکی پیدائش فرخ آباد میں۱۹۳۵ء میں ہوئی تھی۔ وہ طویل عرصے مکتبہ جامعہ کے جنرل منیجر رہے۔ ان کی ادارت میں ’کتاب نما‘  اورپیام تعلیم‘، شائع ہوا۔ دونوں رسالوں نے اپنی شناخت قائم کی۔ وہ ادیب  یا شاعر نہیں تھے لیکن  ادب کا بہت ستھرا ذوق رکھتے تھے اور ملک کے تمام شاعروں اور ادیبوں تک ان کی  رسائی تھی ۔ انہوں نے مکتبہ جامعہ کو اپنے خون سے سینچا تھا۔ اس دور میں اردو کی بہت اہم کتابیں شائع ہوتی تھیں اور مکتبہ جامعہ کی پورے ملک میں  اسی وجہ سے شناخت بھی قائم ہوئی تھی۔ وہاں سے سبکدوشی کے بعد انہوں نے نئی کتاب پبلشر نام سے نیا اشاعتی ادارہ قائم کیا۔ یہ ادارہ ادیبوں، شاعروں،افسانہ نگاروں اور دیگر ادبی سرگرمیوں کو انجام دینے والوں کا مرکز بن گیا۔  شاہد علی خاں نے ’نئی کتاب‘ کے نام سے سہ ماہی رسالہ بھی جاری کیا تھا جس میں وہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔ ہر  اتوار کو ان کا ادارہ   پبلشروں،ادیبوں، شاعروں اور افسانہ نگاروں کے لئے ایک طرح سے میٹنگ کا مرکز   بن جاتا تھا ۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ اردو کے پروفیسر اور مشہور نقاد ڈاکٹر مولا بخش انصاری کا بدھ کی صبح علی گڑھ کے ایک اسپتال میں مختصر علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر تقریباً ۵۵؍  سال تھی۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ مولا بخش کو سانس کی بیماری کی وجہ سے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔چند دنوں تک اسپتال علاج کیا گیا لیکن ان کی حالت بگڑتی گئی اور آخر کار وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ مولا بخش مشہور نقاد تھے ۔ اردو ادب پر ان کی گہری نظر تھی اور دہلی یونیورسٹی کے دیال سنگھ کالج کے شعبہ اردو کے استاذ تھے لیکن۲۰۱۴ءمیں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستگی اختیار کرلی تھی اور وہ وہاں پروفیسر ہوگئے تھے۔  وہ  طلبہ میں کافی مقبول تھے۔ شاعر بھی تھے اور مشاعروں میں شرکت کرتے  اور ترنم سے مشاعرہ پڑھتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ایک اچھے مقرر بھی تھے۔ ان کی تعلیم جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں ہوئی تھی۔ وہ چمپارن کے رہنے والے تھے۔ان کی شناخت نقاد مابعد جدید کے طور پر ہے۔ ان کی کتاب ’جدید ادبی تھیوری اور گوپی چند نارنگ‘، ’خواجہ حسن نظامی کی نثر: ثقافتی لائحہ عمل‘  اور ’خواجہ میر اثر‘ہے۔ اسلوبیات پر وہ کام کر رہے تھے جو کئی جلدوں میںجلد ہی شائع ہونے والی تھی ۔ 

مراٹھواڑہ کو ادبی شناخت عطا کرنے والے اہم ناموں میں سے ایک کہنہ مشق شاعر و ادیب  اور تعلیمی شخصیت فہیم احمد صدیقی کا یہاں اچانک حرکت قلب بند ہوجانے کے سبب انتقال ہو گیا۔ دکن کے معروف جدید لب و لہجہ کے شاعر ڈاکٹرفہیم احمدصدیقی روزانہ کی طرح اپنی رہائش گاہ کے سامنے کُرسی پربیٹھاکرتے تھے اور آج کرسی پربیٹھے تھے کہ اچانک دل کا دوہ پڑا ۔ وہ شوگر اور بی پی کے مریض تھے۔  اسپتال لے جانے سے قبل ہی ان کی روح پرواز کر گئی ۔ان کی نماز جنازہ  نظام کالونی کے گراونڈ میں ادا کی گئی اور یہیں کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ۔وہ شعری مجموعہ ’وارفتہ ‘کے علاوہ  چند اہم نثری تخلیقات کے بھی مصنف تھے ۔ گزشتہ سال  اُن کے بڑے فرزند ندیم احمدصدیقی کاانتقال ہونے کے بعد سے وہ غمزدہ رہنے لگے تھے۔ چندسال قبل ناندیڑ کے پرتبھانکیتن کالج کے صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے تھے اور اس کے بعد سے ہی تخلیقی کاموں میں مصروف تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK