بامبے کیتھولک سبھا کی جانب سے ممبئی، تھانے اور نوی ممبئی میں چرچ کے باہر اور دیگر۳۵؍ مقامات پر پرامن احتجاج کیا گیا۔ آئین میں دی گئی مذہبی آزادی سلب کرنے والے اس بل کے خلاف پوری قوت سے مہم جاری رکھنے کا عہد۔ بل کی سنگینی کے پیش نظر دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے بھی آواز بلند کرنے کی اپیل۔
وکھرولی میں سینٹ جوزف چرچ کے باہر احتجاج۔ تصویر: آئی این این
ریاستی حکومت کی جانب سے تبدیلیٔ مذہب مخالف بل(اینٹی کنورژن بل) اسی سرمائی اجلاس میں ناگپور میں متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت کا یہ قدم فریڈم آف ریلیجن (مذہب کی آزادی) کے آئینی حقوق کے صریح منافی ہے۔ اس کے خلاف ’دی بامبے کیتھولک سبھا ‘نے سخت مخالفت کرتے ہوئے اتوار ۹؍نومبر کو مہم کا آغاز کیا اور مہم کے پہلے مرحلے میں ممبئی ، تھانے اور نوی ممبئی میں چرچ اور دیگر اہم جگہوں پر۳۵؍ مقامات پر خاموش احتجاج کیا ۔ اس موقع پر مظاہرین ہاتھوں میں الگ الگ نعروں والے پلے کارڈ اٹھا کر حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت اور بل نہ لانے کا مطالبہ کررہے تھے،حالانکہ مہاراشٹر حکومت نے اس بل کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ دھمکی ، زور زبردستی یا لالچ دے کر مذہب تبدیل کرنے کی کوششوں اور سرگرمیوں پر قدغن لگانا ہے جیسا کہ اس سے قبل پبلک سیفٹی بل کے نام پر کیا گیا تھا جبکہ بل کا مقصد کچھ اور تھا۔
زد پر دوسرے بھی ہیں
اس تعلق سے بامبے کیتھولک سبھا کے ترجمان ڈولفی ڈیسوزا نے نمائندہ انقلاب سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بھی واضح کیا کہ اس کی زد میں محض کیتھولک ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب بھی آئیں گے اور سب کے آئینی حقوق پر ضرب پڑے گی۔ وزیراعلیٰ دویندر فرنویس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ’فریڈم آف ریلیجن‘ (مذہب کی آزادی) مخالف اینٹی کنورژن بل واپس لیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اس پر سخت تشویش اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ اس بل کو دسمبر۲۰۲۵ء میں ناگپور میں ہونے والے سرمائی اجلاس میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس بل سے متعلق کئی خدشات ہیں، اسی لئے اتوار کو ممبئی، تھانے اور نوی ممبئی میں کئے گئے مظاہروں میں شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور اپنا احتجاج درج کرایا۔
بل پاس ہونے پر کیا اندیشے ہیں؟
(۱) یہ بل آئینی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ہندوستان کا آئین مذہبی آزادی کا مکمل حق فراہم کرتا ہے جس میں ضمیر کی آزادی، اپنے مذہب پر عمل کرنے، اس کی تبلیغ کرنے اور اسے پھیلانے کا حق آرٹیکل۲۵؍ میں دیا گیا ہے۔
(۲) مجوزہ بل رضاکارانہ مذہبی تبدیلیوں کو مجرم قرار دیتا ہے، جو کہ مذہب کے انتخاب میں شخصی آزادی میں مداخلت ہے۔
(۳) یہ بل ہمدردی کی روح کو ختم کرنے کی ایک طرح سے دھمکی دیتا ہے ۔ ایسے میں ہر نیکی کا عمل بد نیتی یا لالچ کے ذریعے تبدیلی مذہب کی کوشش کے نام پر غلط طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ بل مذہبی آزادی کے حق کو خطرے میں ڈال دیتا ہے اور دوسروں کے اپنی پسند کے مذہب کے اختیار کی تبدیلی کے حق کو بھی محدود کرتا ہے۔
(۴) اس بل سے اقلیتوں کے نشانے پر آنے اور غلط استعمال کا خطرہ ہے۔ حالانکہ بل کا ظاہری مقصد زبردستی یا دھوکے سے مذہب کی تبدیلی کو روکنا بتایا گیا ہے لیکن دیگر ریاستوں کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کے قوانین دراصل اقلیتی مذہبی گروہوں، فلاحی اداروں یا انفرادی طور پر مذہبی سرگرمیوں میں مصروف افراد کو ہراساں کرنے کیلئے استعمال کئے جا سکتے ہیں۔
(۵) یہ بل صرف مبینہ زبردستی مذہب کی تبدیلی کو روکنے کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ مذہبی اقلیتوں پر نگرانی اور امتیاز کے دروازے کھول سکتا ہے۔
(۶) اس بل کے ذریعے مختلف برادریوں کے درمیان اتحاد کے بجائے تفریق کو بڑھاوا دینے کا اندیشہ ہے۔
(۷) متعدد عیسائی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان کا کام تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، سماجی بہبود سب کے لئے بلا تفریق مذہب کے پیش کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد انسانی ہمدردی پر ہے۔مجوزہ بل ایسی سرگرمیوں کو محدود یا مشکوک بنا سکتا ہے کیونکہ کسی بھی خدمت کو لالچ یا ترغیب کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
(۸) بل کی ابہام انگیزی اور خطرناک ہے۔ بل میں’ترغیب‘ یا ’زبردستی‘ جیسے الفاظ کی مبہم تعریفیں شامل ہیں، جو غلط استعمال کا باعث بن سکتی ہیں۔
(۹) یہ بل مذہب بدلنے یا اپنے مذہب پر عمل کرنے کے بنیادی حق کو خطرے میں ڈالتا ہے اور مذہبی بنیاد پر خدمت یا رابطے کو بھی محدود کر سکتا ہے۔
بامبے کیتھولک سبھا کے ترجمان کے مطابق ایک طرف ہمارے ملک میں معاشی ناہمواری اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے، جو حکومت کی ترجیح ہونی چاہئے، اس کے برخلاف ایسے غیر ضروری اقدامات میں الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے میں ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے مذہب پر پرامن طریقے سے چلنے اور عمل کرنے دیا جائے، جس کی ہمارا آئین ضمانت ہی نہیں۔ تحفظ فراہم کرتا ہے۔
ڈولفی ڈیسوزا نے انتباہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ خاموشی ظلم کو طاقت دیتی ہے اور اب خاموش رہنا دشوار ہوگیا ہے، ہمیں آواز اٹھانی ہوگی۔
انہوں نے مزید کہاکہ یہ مہم جاری رہے گی۔ یہ بل درحقیقت اقلیتوں کو ہراساں کرنے کی ایک اور شکل ہے۔ ہم دیگر مذہبی برادریوں اور سنجیدہ وذمہ دار شہریوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس مہم میں شامل ہوں۔ آئندہ۱۶؍ نومبر کو آئی سی کالونی بوریولی میں پرامن احتجاج کیا جائے گا۔