مہاراشٹر میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف مثالی احتجاج کیا گیا ، مختلف وفود کی جانب سے قانون کی کئی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئےاپیل کی گئی کہ یہ قانون رَد کیا جائے۔
EPAPER
Updated: May 03, 2025, 4:21 PM IST | Mumbai
مہاراشٹر میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف مثالی احتجاج کیا گیا ، مختلف وفود کی جانب سے قانون کی کئی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئےاپیل کی گئی کہ یہ قانون رَد کیا جائے۔
وقف ترمیمی قانون کے خلاف بطور احتجاج ـ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے مثالی احتجاج کیا گیا۔ جمعہ ۲؍ مئی کو ممبئی میں ریاست کےگورنر اور ریاستی سطح پرتمام ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر پرڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ضلع کلکٹرس کے توسط سے صدر جمہوریہ کو میمورنڈم بھجوایا گیا۔ ۱۱؍نکات پرمشتمل اس میمورنڈم میں وقف ترمیمی قانونـ کی خامیاں اور کس طرح یہ آئین سے متصادم ہے، بتایا گیا ہے۔راج بھون میں گورنر کی عدم موجودگی میں ان کے سیکریٹری ایس راما مورتی کو دیاگیا اور مطالبہ کیا گیا کہ وقف ایکٹ کو فوراً منسوخ کیا جائے۔
کن شہروں میں میمورنڈم دیا گیا
اسی طرح ریاست کے دیگر اضلاع تھانے، پال گھر، اورنگ آباد،مالیگاؤں ہنگولی، بھساول، ایوت محل، پربھنی، واشم، جلگاؤں، جامنیر، پونے، منگرول پیر ، بیڑ،ناندیڑ، نندوبار، جالنہ، سانگلی اور دیگرشہروں و اضلاع میں ڈی ایم کواور تعلقوںمیں ایس ڈی ایم میمورنڈم دیا گیا۔ یادرہے کہ اس ترمیمی قانون کے خلاف پرسنل لاء بورڈ کی جانب سےاراکین پارلیمان سے ملاقات، احتجاجی جلسے ، پریس کانفرنسیں، سیاہ فیتہ باندھ کراحتجاج اور بتی گل احتجاج کئے جاچکے ہیں۔ میمورنڈم دیاجانااسی احتجاج کی ایک اور اہم کڑی ہے۔ بورڈ کی جانب سےدیگر طریقوں سے احتجاج کاسلسلہ ۷؍جولائی تک جاری ر ہے گا۔
میمورنڈم میںدرج ۱۱؍نکات کیا ہیں
(۱) وقف ترمیمی ایکٹ ۱۹۹۵ءمیں کی گئی ترمیمات امتیازی ہیں اور ہندوستان کے آئین میں درج بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ ۲)یہ آئین ہند کے آرٹیکل ۱۴؍ ۲۵؍ ۲۶؍ اور ۲۹؍ میں د ئیے گئےبنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔(۳) یہ وقف جائیدادوں کو دی گئی حفاظت اور تحفظ کو ختم کرتی ہیں جبکہ وہی تحفظ ہندو، سکھ، بودھ اور عیسائی برادریوں کو حاصل ہے۔ (۴) یہ مذہب کی آزادانہ پیروی (آرٹیکل ۲۵؍ اور اپنے مذہبی اداروں کے قیام و انتظام آرٹیکل ۲۶؍ اور ۲۹) کے حق کے خلاف ہے۔ (۵) یہ کسی مسلمان شہری کے لئے اپنی جائیداد کو وقف کے طور پر دینے کی آزادی کی خلاف ورزی ہے اگر وہ گزشتہ ۵؍ سال سے عملی مسلمان نہ رہا ہو۔(۶) وقف ترمیمی قانون کی یہ ترامیم امتیازی ہیں کیونکہ یہ دیگر مذہبی اداروں کو دیئے گئے تحفظ اور حقوق کو بھی سلب کر تی ہیں۔(۷) یہ قانونِ تحدید (لاء آف لمیٹیشن) سے دی گئی چھوٹ کو ختم کرتی ہیں، جو وقف جائیداد کے نظم و نسق کے ہمارے حق کو متاثر کرتی ہیں۔(۸) اگر حکومت نے وقف کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے تو اب وہ مالک بن سکتی ہے کیونکہ فیصلہ کا اختیار حکومت کے ہی نامزد افسر کے حق میں چلا جائے گا۔(۹) صرف مسلمان ہی وقف بورڈ اور سینٹرل وقف کونسل کے رکن بن سکتے تھے، اس قانون کے ذریعے یہ شرط بھی ختم کر دی گئی ہے، اب انتخابات کی جگہ نامزدگی نے لے لی ہے۔ (۱۰) وقف استعمال کنندہ کو رجسٹریشن کرانا ہوگا اور اگر معاملہ متنازع ہو جائے تو جائیداد وقف کی حیثیت کھو سکتی ہے۔ (۱۱)یہ تبدیلیاں مسلمانوں کو اپنے ادارے قائم کرنے، چلانے اور منظم کرنے سے محروم کر رہی ہیں۔ لہٰذا ہم آپ سے مؤدبانہ گزارش کرتے ہیں کہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے منظور شدہ ان تمام متنازع ترامیم کو منسوخ کیا جائے۔
وفد میں کون کون شامل تھا ؟
گورنر کومیمورنڈم دینے راج بھون جانے والے موقر وفد میںبورڈ کے اراکین ،سیاسی لیڈران ، صحافی اورسماجی شخصیات اور ملی تنظیموں کے عہدیداران مولانا محمود دریا بادی ،ابوعاصم اعظمی، فرید شیخ،مفتی سعیدالرحمان ، سلیم موٹر والا، مونسہ بشریٰ عابدی، سرفراز آرزو، مولانا آغاروح ظفر، مولانا انیس اشرفی، مولانا عبد الجليل انصاری،مفتی محمد حذیفہ قاسمی، ہمایوں شیخ، ڈاکٹر عظیم الدین، شاکرشیخ ، مولانا برہان الدین قاسمی اور مولانا محمداسید وغیرہ شامل تھے۔ ان سبھی افراد نے نہایت پرزور طریقے سے اپنا مطالبہ پیش کیا۔
دریں اثناء وقف ترمیمی قانون کی منسوخی کیلئے صنعتی شہرمالیگاؤں میں ایڈیشنل کلکٹر دیودت کیکان کو میمورنڈم دیا گیا۔ مالیگاؤں ایکشن کمیٹی برائے تحفظ اوقاف کے رکن تاسیسی حاجی عبدالمجید بکھار والے کی قیادت میں وفد نے کیکان سے ملاقات کی اور تبادلۂ خیال کیا اور انہیں میمورنڈم پیش کیا۔ اس ضمن میں مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی ( سیکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ) نے کہا کہ’’ بورڈ کی ہدایات کے مطابق مالیگاؤں میں مرحلہ وار طریقے سے عمل آوری کی جارہی ہے اور میمورنڈم دیا جانا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ‘‘ ادھرناندیڑ میں معاونین مسلم پرسنل لاء بورڈکمیٹی کی جانب سے ایک وفد نے ضلع ڈپٹی کلکٹر مہیش وڑدکرسے ملاقات کی اور انہیں میمورنڈم دیا۔ وفد میںایڈوکیٹ عبدالرحمن صدیقی، ناصر خطیب، شمیم عبدللہ، مولانا ہارون نظامی، مرزا امجد بیگ، قاضی جمال الدین، مفتی سلیمان رحمانی اور دیگر شامل تھے۔ اسی طرح ایوت محل ، چالیس گائوں ، جلگائوں اور دیگر علاقوں میں مختلف دینی و ملی جماعتوں کے نمائندگان اور دیگر مذاہب کےنمائندوں پرمشتمل وفود نے ضلع کلکٹر کے توسط سے صدر جمہوریہ کومیمورنڈم دیا۔