Inquilab Logo

مینارہ مسجدکی کھاؤگلی سنسان ،رمضان میں لذت کام ودہن کے شوقین مایوس

Updated: May 07, 2021, 7:54 AM IST | saadat khan | Mumbai

اس علاقے میں رمضان کی راتوںمیں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہواکرتی تھی، لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس کے سبب ان دنو ںافطاری کے وقت کچھ ہی دکانیں کھلتی ہیں اور مغرب کےبعد بند کردی جاتی ہیں ۔ رات بھربیداررہنےوالی اس گلی میں اب شام ہوتےہی سناٹا چھاجاتا ہے۔ پریشان حال دکاندار اس وباءکے خاتمے کی دعا کررہےہیں تاکہ آئندہ سال اس گلی کی رونقیں لوٹ آئیں

Locals can be seen in the alley of Minara Mosque where there used to be a huge crowd.Picture:Inquilab
مینارہ مسجد کی گلی جہاں زبردست بھیڑ رہا کرتی تھی، وہاں مقامی لوگ ہی نظر آرہے ہیں۔ تصویر انقلاب

یہاں رمضان المبارک میں خصوصاً شام اور رات میں زبردست بھیڑ رہتی تھی ،اتنا کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں رہتی تھی۔ لوگ عید کیلئے کپڑوں اور مختلف اشیاء کی خریداری کیلئے آتے تھےلیکن کوروناوائرس  اور لاک ڈاؤن  کے سبب گزشتہ سال کی طرح امسال بھی یہاں کی سڑکیں اور گلیاں سنسان ہیں ۔خاص طورپر کھاؤگلی میں کاروبار پوری طرح ٹھپ ہے اس لئے لذت کام ودہن کے شوقین افراد میں مایوسی پائی جارہی ہے کیونکہ وہ ہر سال رمضان میں رات میں یہاں لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہونے کیلئے آتے تھے۔ اب یہاںحالت یہ ہے کہ افطار کے وقت کچھ دکانیں کھلتی ہیں  اور مغرب کےبعد بند کردی جاتی ہیں ۔ اس لئے دکاندار اس وبا کے خاتمے کی دعا کررہے ہیں تاکہ اس گلی کی رونقیں لوٹ آئیں۔
 یہاں گزشتہ ۴۰؍تا۵۰؍سال سے کاروبار کرنے والے  دکانداروں کے مطابق سنسان علاقے کو دیکھ کر گھر سے اُترنے کا دل نہیں کرتا ہے۔ ایسی صورت میں بھی جب کچھ کھانے کےشوقین فون کرکے دریافت کرتے ہیں کہ کوئی اُمید ہے رمضان میں دکانوںکے کھلنے کی تو دل دکھتا ہےکہ کیا سے کیا ہوگیا۔  مینارہ مسجد کی گلی میں چکن اور مٹن سوپ کیلئے مشہوردکان بڑے میاں کےمالک ظہیر محمد یاسین شیخ نے کہا کہ’’رمضان المبارک میں اس علاقے کی رونقوںکا کیا کہنا ۔ایسا نہیں کہ صرف ہماری دکان بلکہ کھانےپینے کی اشیاء کی تمام دکانوںپر بلاتقریق مذہب   ہجوم رہتاتھا ۔ لوگ کھانے پینے کےعلاوہ کپڑوں، جوتے چپل ، عطر، میوہ جات اور ضروریات کی دیگر اشیاء کی خریداری کیلئے پروگرام مرتب کرکے آتے تھے۔ تراویح کے بعد سے سحری تک تا حدنگاہ  بھیڑ   دکھائی دیتی تھی لیکن اس وبا نے گزشتہ ۲؍سال سے یہاں کی رونقوںکو  ماند کردیا ہے۔ حالانکہ افطار کےوقت کچھ دیر کیلئے چند دکانیں کھلتی ہیں مگر ۸؍بجے پھر  بندکردی جاتی ہیں ۔ پورا علاقہ سائیں سائیں کرتاہے۔ جہاں رمضان میں رات بھر کہیں سے گردہ فرائی توکسی گوشہ سے  بھیجہ فرائی، چکن تکہ اور زبان سوپ کیلئے آوازیں بلند ہوتی تھیں۔ وہاں اب خاموشی کا راج ہے ۔  کورونانے سب کچھ تباہ کردیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم ہی پریشان ہیں۔ اس لئے صبر کرکے بیٹھے ہیں کہ اللہ جو کرے گا، بہتر کرے گا ۔ ‘‘
  نورانی ملک سینٹر کے مالک شوکت نورانی نے بتایاکہ ’’میری دکان ۱۹۳۶ء  سے جاری ہے لیکن کبھی ایسا وقت نہیں آیاتھا۔ مالپوہ اور فیرنی کیلئے یہ دکان مشہور ہے مگر گزشتہ ۲؍سال سے رمضان المبار ک میں دکان نہیں کھل رہی ہے جس سے کاروبار بری طرح متاثر ہے۔ حالانکہ دودھ وغیرہ کا کچھ کاروبار ہوجاتاہے مگر رمضان میں جو کاروبار ہوتاتھا، اس کی بات ہی الگ تھی۔ مالپوہ اورفیرنی کے علاوہ  ہمارا  ملک شیک بھی کافی مقبول ہے۔ روزانہ ۴۰؍کین کا ملک شیک بناتا تھا مگر اب صرف ۲۵؍فیصد ہی کاروبار ہورہاہے ۔ اصل میں بیرون ممبئی کے لوگ نہیں آپارہےہیں ۔ علاوہ ازیں یہاں جو لوگ ہیں ،ان میں سے بیشتر لوگ مالی پریشانیوں کا شکارہیں۔ بس خرچ نکل رہاہے ۔ اس میں بھی ہم مطمئن ہیں۔‘‘
 سلیمان عثمان مٹھائی والاکی دکان کےسامنے تیتر بٹیر کی دکان لگانے والے محمد غوث عبدالرحیم عرف صادق نے بتایاکہ ’’رمضان المبار ک میں گزشتہ ۳۰؍ سال سے دکان لگارہاہوں ۔ اس مہینے میں خاص طورپر بیرو ن ممبئی سے کاریگروںکو بلاتاتھالیکن گزشتہ ۲؍سال سے دکان نہیں لگ رہی  ہے جس کی وجہ سے سیکڑوں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ میری دکان پر رمضان میں اضافی ۲۵؍ افراد کام کرتے تھے۔سب بے روزگار ہوگئےہیں۔ میں اسی علاقےمیں رہتاہوں ۔ رات کو جب گھر سے گلی کا نظارہ کرتاہوں،ہر طرف سناٹا نظر آتا ہے تو گھر سے اُترنےکا دل نہیں کرتا ۔ بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ رمضان میں یہاں کیانظارہ ہوا کرتا تھا اور اب کیاحالت ہے۔ حالانکہ ہمارے گاہکوںکو معلوم ہےکہ دکانیں بندہیں اس کےباوجود بھی کچھ لو گ فون کرکے دریافت کرتےہیں کہ رمضان میں دکان کھلنےکی اُمید ہے کیا۔ بدھ کو ہی جوگیشوری سے ایک گاہک نے فون کرکے پوچھا تھاکہ صادق،  دکان کھلنے والی ہے کیا؟یا پارسل کی کوئی گنجائش ہے ۔ ‘‘     

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK