یہی کہ مذہبی مسئلہ پیدا کیا جائے اور پھر اسے بھنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ تفرقہ کی اس سیاست کو شکست دینے کی ضرورت ہے۔
EPAPER
Updated: December 06, 2025, 4:42 PM IST | Abu Mathir | Mumbai
یہی کہ مذہبی مسئلہ پیدا کیا جائے اور پھر اسے بھنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ تفرقہ کی اس سیاست کو شکست دینے کی ضرورت ہے۔
ہندوستان کی حالیہ تاریخ میں اگر کوئی واقعہ سب سے گہرا زخم چھوڑ گیا ہے تو وہ بابری مسجد کا انہدام ہے۔ عموماً اس حادثے کی ذمہ داری بی جے پی، وی ایچ پی اور آر ایس ایس پر ڈال دی جاتی ہے، اور کانگریس کو اس بحث سے الگ رکھا جاتا ہے۔ مگر تاریخ جب کھلتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پیچیدہ دھاگے کی گرہیں کہیں نہ کہیں ۱۹۸۰ء کے سیاسی منظرنامے میں کانگریس کی اپنی حکمتِ عملی سے بھی جڑی نظر آتی ہیں۔ کانگریس اپنے آپ کو سیکولر کہتی رہی، مگر اس نے بھی مذہب کو سیاست کا حصہ بنایا۔ شاہ بانو فیصلے کی معطلی اور پھر ۱۹۸۶ء میں بابری مسجد کا تالہ کھلوانا،یہ وہ فیصلے تھے جنہوں نے ملک میں ’’ووٹ بینک‘‘ کی سیاست کی بنیاد رکھی۔ ایک طرف مسلمانوں کو راضی کرنے کی کوشش، دوسری طرف ہندوؤں کی ناراضی دُور کرنے کی تدبیریں۔ یہی وہ وقت تھا جس کے بعد اہل سیاست نے مذہب کو ووٹ کے حصول کا مؤثر ذریعہ تسلیم کرلیا۔
یہ بھی پڑھئے:’’جو کچھ نہیں ہوا وہ کیوں نہیں ہوا؟‘‘
دوسری طرف پنجاب میں خالصتان تحریک اٹھی۔ سرکاری بیانیہ اور میڈیا نے اس تحریک کو صرف چند مسلح افراد کا مسئلہ بیان کرنے کے بجائے پورے سکھ مذہب سے جوڑ دیا۔ سونے کے مندر میں فوجی کارروائی نے سکھ برادری میں اجتماعی احساسِ محرومی پیدا کیا۔ پھر ۱۹۸۴ء کے فسادات میں ریاستی خاموشی اور بے بسی نے سیاسی حلقوں کو ایک سبق دیا: مذہبی جذبات کو بھڑکایا جائے تو عوام کی سمت بدلی جا سکتی ہے، اور سمت بدلے تو انتخابی نتیجہ بھی بدل جاتا ہے۔یہی سبق بعد میں رام مندر تحریک نے اپنا لیا۔ بی جے پی نے مذہبی علامت کو سیاسی مہم میں تبدیل کیا، رتھ یاترا نکلی، کارسیوا کے ہجوم منظم کئے گئے، مذہب کو شناخت کی سیاست میں ڈھال دیا گیا۔ دوسری طرف معاشی بدحالی، بیروزگاری، تعلیمی ابتری اور نفرت انگیزی سب کو پس ِ پشت ڈال دیا گیا۔ سیاست کا محور وہی خوف بنا جسے ہمارے اہلِ سیاست نے بڑی مہارت سے تراشا: ”ہندو خطرے میں ہیں“، ”مسلمان پیچھے دھکیل دیئے جائیں گے“، ”ماضی کا بابر آج بھی دروازے پر کھڑا ہے“، وغیرہ۔
یہ بھی پڑھئے: سیاسی محاذ پر مسلمان اتنا بے اثر کیوں ؟ اب کیا تدبیر ہو؟
اصل مسئلہ یہی تھا: سیاسی طاقت کا کھیل۔ اور جب طاقت کا کھیل مذہب کے کندھے پر رکھ کر کھیلا جائے تو انجام ہمیشہ خون، خوف اور تقسیم ہی ہوتا ہے۔ ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد کا انہدام کوئی اچانک پیش آنے والا واقعہ نہیں تھا۔ یہ ایک منظم سیاسی ماحول کا نتیجہ تھا جس میں عدالتیں یقین دہانی کراتی رہیں، حکومتیں خاموش رہیں، اور مذہبی جذبات کو اس حد تک بھڑکایا گیا کہ قانون، آئین اور سماجی ہم آہنگی سب مجبور نظر آنے لگے۔ یہ اس بات کی علامت تھا کہ سیاست مذہب پر جب سوار ہو جائے، تو ریاست کا اختیار چھوٹی سے چھوٹی بھیڑ کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے۔ اس واقعے نے صرف مسلمانوں کو نہیں، ہر اس ہندوستانی شہری کو جھنجھوڑا ہے جو قانون اور انصاف پر یقین رکھتا ہے۔ اور شاید ہمارے سیاستدانوں نے آج تک اس واقعے سے یہی سبق سیکھا ہے کہ مذہبی مسئلہ جتنا بڑا ہوگا، ووٹ بینک اتنا مضبوط ہوگا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان میں سیاست ہمیشہ مذہبی شناخت کے سہارے ہی چلتی رہے گی؟ کیا ہمارے عوام کبھی یہ سمجھیں گے کہ مذہبی جذبات کے نام پر جیتی گئی ہر انتخابی فتح دراصل تعلیم، روزگار اور صحت جیسی بنیادی ضرورتوں کی شکست ہوتی ہے؟
اگر جواب ’’نہیں‘‘ نہیں ہے، تو پھر آنے والی نسلوں کی قسمت میں بھی کرفیو، آگ، لاشیں اور نفرت ہی لکھا جائے گا، خدانخواستہ۔ اُس دن سے ہمیں ڈرنا چاہئے!