Inquilab Logo

ممبرا :گیس سبسیڈی بند ہونے سے غریب شہری لکڑی کےچولہے پر کھانا پکانے پر مجبور!

Updated: April 16, 2022, 8:18 AM IST | Iqbal Ansari | Mumbai

رسوئی گیس کے دام ۹۵۰؍ روپے تک پہنچ جانے اور بے تحاشا مہنگائی کی وجہ سے یومیہ اجرت پر مزدوری کرنے والے افراد کواہل خانہ کی کفالت میں مشکلات کا سامنا ، کئی مسائل سے دوچار

Asiya Sheikh is lighting a wooden stove for cooking.
آسیہ شیخ کھانا بنانے کیلئے لکڑی کا چولہاجلارہی ہیں۔

’اس مہنگائی کے دور میں رسوئی گیس کے دام ۹۵۰؍ روپے تک پہنچ گئے ہیںاور دوسری جانب گیس سبسیڈی خاموشی سےبند کر دی گئی ہے۔ گیس سلنڈر مہنگا ہونے کے سبب ہم لوگ دن میں محض ایک وقت کھانا گیس کے چولہے پر پکانے پر مجبور ہیں اور دوسرے وقت  لکڑی کے چولہے پرلکڑیاں جلاکر کھانا پکاتے  ہیں۔‘‘ بے تحاشا مہنگائی پر آسیہ ساجد شیخ نے اس طرح اپنا ردعمل ظاہر کیا ۔ ان کا خاندان ۱۵؍ افراد پر مشتمل ہے۔ آسیہ ممبرا پہاڑی پر جھوپڑے میں رہتی ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ میں ۴؍ افراد یومیہ اجرت پر مزدوری کرتے ہیں جنہیں کبھی کام ملتا ہے اور کبھی نہیں جس کےسبب ان کی مالی حیثیت اتنی نہیں ہےکہ  ماہانہ ۹۵۰؍ روپے ایک گیس سلنڈر پر خرچ کرسکے۔رمضان المبارک میں تو کام ویسے بھی کم  ملتا ہے۔
  ممبرا کی پہاڑی پر کیلاش گیری  علاقے میں واقع ہارون چال کے ایک مکان میں رہنے والی آسیہ شیخ نے بتایاکہ ’’ گزشتہ ۲؍ برس سے جب سے لاک ڈاؤن لگا تھا تب سے اب تک ہمارے گھر کے حالات  سدھر نہیںسکےہیں۔ پہلے حکومت کی جانب سے کچھ گیس سبسیڈی دی جاتی تھی اور پہلے رسوئی گیس سلنڈر کی قیمتیں بھی  ۵۰۰؍ تا ۶۰۰؍ روپے تھی لیکن جب سے لاک ڈاؤن لگا ہے تب سے ایک جانب گھر کی کفالت کرنے والوں کو کام ملنا بند ہو گیا اور آمدنی بند ہو گئی ہے تو دوسری جانب حکومت کی جانب سے بڑی خاموشی سے سبسیڈی دینا بھی بند کر دیا گیا ہے۔ غریبوں کے وکاس کا دعویٰ کرنے والی مرکزی حکومت کے دور اقتدار میں ہماری بھوکے رہنے تک کی نوبت آگئی ہے۔‘‘انہوںنے یہ بھی کہاکہ ’’رسوئی گیس مہنگا ہونے کے سبب ہم لکڑیاں چن کرلاتے ہیں اور  لکڑی کے چولہے پر کھاناپکاتے  ہیں۔ ‘‘
  آسیہ کے پڑوس میں رہنےوالی غوثیہ سلیم خان کا خاندان بھی ۱۰؍  افراد پر مشتمل ہے۔ ان کی جوائنٹ فیملی میں میاں بیوی کے علاوہ ۲؍بیٹے ، ان کی بیویاں اور ۴؍بچے شامل ہیں۔ دونوں بیٹے بھی یومیہ اجرت پر  مزدوری کرتے ہیںجبکہ غوثیہ خود بھی گھریلو کام کاج کرتی ہے اور چنددفاتر میں صاف صفائی  کا کام کر کے اہلِ خانہ کی کفالت میں ہاتھ بٹاتی ہے۔ غوثیہ نے بتایاکہ’’اب جبکہ مہنگائی مسلسل بڑھتی جارہی ہے، اناج، کھانے کا تیل،سبزی ترکاری بھی مہنگی ہوتی جارہی ہے ۔ ایسے میںہماری آمدنی تو کیا بڑھتی ،گھر خرچ بڑھتا جارہا ہے۔  پہلے لاک ڈاؤن سے گھر کے مرد حضرات کا کام کاج بھی  برابر نہیں  تھا ۔ لاک ڈاؤن سے پریشان حال ہم جیسے شہریوں کیلئے حکومت کی جانب سے مدد ملنا چاہئے تھی لیکن اس کے برخلاف جو رسوئی گیس کی سبسیڈی  دی جاتی تھی ، وہ بھی خاموشی سے بند کر دی گئی ہے۔ سبسیڈی ملنے سے اتنی راحت ضرورت ہوتی تھی کہ کچھ رقم بینک کھاتے میں آجاتی تھی جس  میں مزید پیسے ملا کر سلنڈر خریدا جاسکتا تھا۔  ‘‘ 
 غوثیہ کے شوہر نےیاد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ آخری مرتبہ ۱۸۰؍  روپے سبسیڈی ملی تھی ،اس کے بعد سے بند ہو گئی۔‘‘انہوں نے مزید بتایا کہ’’ شام کے وقت کیلاش گیری کے گھروں سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر خاندان کھانا لکڑی کے چولہے پر ہی پکاتے ہیں ۔‘‘
’’اب تو کیروسین سے بھی محروم کردیا گیا ہے‘‘
 ایک اور خاتون خانہ نے بتایا کہ ’’ پہلے تو راشن کارڈ پر کیروسین  بھی مل جاتا تھا جس سے اگر گیس سلنڈر مہنگا  ہو جائے تو کیروسین کے استعمال سے کھانا پکالیا جاتا تھا لیکن اسے بھی بند کر دیا گیا ہے۔غریبوں سے سہولتیں چھین کر امیروں کو دی جارہی ہیں۔ گویا غریبی نہیں بلکہ غریبوں کو ہٹانے کا کام کیا جارہاہے۔‘‘
 واضح رہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے کمرشیل سلنڈر پر تقریباً  ۱۰۳؍  روپے تک کی کمی کی گئی ہے جبکہ رسوئی گیس کے سلنڈر پر کوئی کمی نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی سبسیڈی بحال کی گئی ہے۔
گیس سبسیڈی دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ 
 یہ پریشانیاں  نہ صرف ممبرا بلکہ ممبئی اور تھانے کے علاوہ دیگر علاقوں کے غریب شہروں کی بھی ہیں۔   ان سبھی کا یہی مطالبہ ہے کہ غریبوں کا وکاس کرنے والی حکومت جلد از جلد گیس سبسیڈی دینے کا سلسلہ دوبارہ شروع کرے کیونکہ جو گیس سلنڈر کبھی ۴۲۰؍ روپے کا ہوا کرتا تھا،  اب اس  کی قیمت  ۹۵۰ ؍ روپے ہو گئی ہے۔ دوسری جانب آمدنی میں اضافہ تو نہیں ہوا البتہ بے روزگاری  ضرور بڑھ رہی ہے  اور اب دوبارہ لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے آثار نظر آرہے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK