Inquilab Logo

فلسطین کے نابلس اور اریحا گائوں محصور، گھر گھر تلاشی

Updated: March 04, 2023, 11:34 AM IST | Jerusalem

صہیونی فوج نے ۲؍ یہودی فسادیوں کی موت کے بعد دونوں شہروں کو لگاتار؍ دنوں سے گھیر رکھا ہےمریضوں کے ایمبولنس تک باہر نہیں جاپا رہے ہیں

Palestinians are protesting near Hawara village while the Zionist army surrounds them
حوارہ گائوں کے قریب فلسطینی احتجاج کر رہے ہیں جبکہ صہیونی فوج نے انہیں گھیر رکھا ہے

فلسطین کے دو شہروں میں صہیونی فوج کی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے۔ مغربی کنارے میں واقع  نابلس اور اریحا کو بدھ سے اسرائیلی فوجوں نے گھیر رکھا ہے اور یہاں سے کسی کو باہر نکلنےکی اجازت نہیں ہے۔ اسرائیلی فوجی ہر ایک مکان کی تلاشی لے رہے ہیں ۔ لوگوں کو ان کے مکانات سے نکال کر گھنٹوں باہر کھڑا کیا جا رہا ہے ۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ان علاقوں میں فساد جیسی صورتحال پیدا ہو گئی تھی جب یہودی باز آباد کاروں اور فلسطینی باشندوں کے درمیان جھڑپیں ہونے لگی تھیں۔  ان جھڑپوں کے دوران ۲؍ یہودی باز آباد کار ہلاک ہو گئے تھے جن کا انتقام لینے کیلئے بدھ کو صہیونی فوجوں نے ان علاقوں پر دھاوا بول دیا تھا۔
      یاد رہے کہ گزشتہ ۱۶؍ فروری کو ۴۰۰؍ یہودیوں نے  نابلس اور  اس کے آس پاس کے علاقوں پر حملہ کر دیا تھا۔ انہوں نے لاٹھیوں  اور سلاخوں سے مار کر سیکڑوں فلسطینیوں کو زخمی کر دیا تھا جبکہ ایک فلسطینی باشندے کی موت ہو گئی تھی۔ اسی فساد کے دوران ۲؍ یہودیوں کی بھی موت ہو گئی۔   ہر چند کہ اسرائیلی پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ۶؍ شر پسند یہودیوں کو گرفتار کیا ہے لیکن بجائے اس کے کہ اس شدت پسندکو روکنے کے اقدامات کئے جاتے اسرائیل کے وزیر خزانہ  بیزالیل اسموتریچ نے یکم مارچ کو یہ اشتعال انگیز بیان دیا کہ’حوارہ گائوں ‘ کو نیست و نابود کر دیا جانا چاہئے۔ میرا خیال ہے کہ اسرائیلی حکومت کو یہ اقدام کرنا چاہئے۔‘‘  یاد رہے کہ حوارہ نابلس میں واقع ایک گائوں ہے جہاں ان دو یہودیوں کو فلسطینیوں کی دفاعی کارروائی میں اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔ یاد رہے کہ یہ دونوں حملہ آور تھے۔ 
   اس کے بعداسرائیلی فوج کی بھاری نفری نے اریحا میں عقبہ جار کیمپ پر چھاپے مارے اور گولیاں مار کر دو فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ ایک فلسطینی کو شدید زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا اور کچھ دیر بعد اسرائیلی فوج نے اس کی شہادت کا اعلان کردیا۔ زخمی ہونے کے بعد وہ کئی گھنٹے سڑک پرتڑپتا رہا مگر اسرائیلی قابض فوج نے سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے زخمی کو طبی امداد فراہم کرنے اور اسے ایمبولینس کے ذریعے اسپتال منتقل کرنے کی اجازت نہیں دی۔  اس دوران فلسطینی باشندوں اور سماجی کارکنان نے حوارہ کے قریب ایک مقام پر احتجاج شروع کیا ہے۔ انہوں نے باقاعدہ ایک جگہ دھرنا دے رکھا ہے اور جلائے گئے مکانات کی از سر نو تعمیر کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ۔ 
 محاصرہ اٹھانے کیلئے عالمی برادری سے اقدامات کی اپیل  
 ادھر فلسطینی وزارت خارجہ نے مغربی کنارے کے ان دونوں شہروں پر اسرائیلی قابض فوج کی طرف سے لگاتار تیسرے روز بھی مسلط کردہ محاصرہ ختم کروانے کیلئے عالمی برداری اور امریکہ سے  مداخلت کی اپیل کی ہے۔  وزارت  کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی طرف سے نابلس اور اریحا کی ناکہ بندی کی وجہ سے دونوں شہروں میں نظام زندگی بری طرح مفلوج ہو کر رہ گیا ہے جس کےنتیجے میں کسی نئے بحران کا اندیشہ ہے۔ وزارت کا کہنا ہے کہ  فلسطینیوں کی زندگیوں میں خلل ڈالنے، ان کی نقل و حرکت کو مفلوج کرنے اور اریحا اور نابلس کے شہروں کو حراستی مراکز میں تبدیل کرنے کا عمل قابض ریاست کی طرف سے فلسطینی آبادی کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے۔ اسرائیلی ناکہ بندی کے نتیجے میں مریضوں کو اسپتالوں تک رسائی میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ فلسطینیوں کے بیرون ملک سفر میں رکاوٹ پیدا ہوچکی ہے ۔ یہ ناکہ بندی بلا جواز اورغیرقانونی ہے۔ عالمی برادری  اسے ختم کروانے کیلئےٹھوس اقدامات کرے۔
 امریکہ اور متحدہ عرب کی جانب سے مذمت
  امریکہ نے صہیونی وزیر بیزالیل ایموتریچ کے اس بیان کی مذمت کی ہے کہ ’’ حوارہ گائوں کو نیست و نابود کر دیا جانا چاہئے‘‘ امریکی وزارت ترجمان   نیڈ پرائس نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’’جس طرح ہم فلسطینیوں کو تشدد پر اکسانے کی مذمت کرتے ہیں، اسی طرح ہم ان اشتعال انگیز بیانات کی بھی مذمت کرتے ہیں جو تشدد پر اکسانے کے مترادف ہیں۔‘‘ انہوں نے اس بیان کو غیر ذمہ دارانہ ،نفرت انگیز اور ناپسندیدہ قرار دیا۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات نے بھی اس بیان کی مذمت کی ہے  اور اسے نسل پرستانہ بتایا ہے۔  امارات کی وزارت خارجہ نے بیان جاری کرکے کہا ’’  نفرت انگیزی کو بڑھانے والے اس طرح کے بیانات کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔‘‘ ساتھ ہی وزارت نے امن کے قیام کیلئے اقدامات پر زور دیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK