Inquilab Logo

’ نئی تعلیمی پالیسی کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت‘

Updated: August 11, 2020, 7:31 AM IST | Iqbal Ansari | Mumbai

کانگریس کی جانب سے منعقدہ ویب نار میں ماہرین نے متنبہ کیا کہ بار بار کے بورڈ امتحان کی وجہ سے طلبہ میں امتحان کا خوف بڑھے گاجبکہ جماعتوں کو ملانے سے اسکول کا وجود ہی خطرے میں پڑسکتاہے۔ مودی سرکار کے ذریعہ وضع کی گئی تعلیمی پالیسی کوغریبوں اور دلتوں کے بھی خلاف قراردیاگیا، پارلیمنٹ میں اس کی مخالفت کا اعلان

Webinar on new education policy
نئی تعلیمی پالیسی پر ویب نار کا ایک منظر۔ شرکاء نے اس کی خامیوں کی جانب توجہ دلائی۔

مودی سرکار کی وضع کردہ’نئی ایجوکیشن پالیسی ‘ کے  تعلق سے عوام میں پھیلی بے چینی کے بیچ کانگریس کی جانب سے پیر کو منعقدہ ایک ویب نار میں اس کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت پر زور دیاگیا۔ میٹنگ میں شریک ماہرین نے اس بات سے اتفاق کیا کہ  یہ  پالیسی طلبہ اور اسکول دونوں کے کیلئے خطرناک ہے ۔   ماہرین کے مطابق تیسری پانچویں اور آٹھویں جماعت میں یعنی  با ربار بورڈ امتحان لینے سے طلبہ پر امتحان کا خوف بھی بڑھے گا اور کلاسوں کو ملانے سے اسکولوں کا وجود بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔شرکاء نے نئی پالیسی کو غریب طلبہ اور دلتو کیلئے بھی نقصاندہ قراردیتے ہوئے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ ان کیلئے تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا بھی دشوار ثابت ہو سکتا ہے۔
  ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ  پالیسی کی خامیوں کو کانگریس کے اراکین پارلیمان کی جانب سے لوک سبھا اور راجیہ میں پوری شدت کے ساتھ پیش کرنا چاہئے جس کے بعد  ویب نار کے مہمانانِ خصوصی اکھل بھارتیہ کانگریس کمیٹی کے چیف سیکریٹری اور مہاراشٹر کانگریس کمیٹی کے پربھاری  اور رکن پارلیمان ملکارجن کھرگے  نے بھی   اتفاق کیا ہےکہ نئی پالیسی غریبوں اور دلتوں کیلئے صد فیصد  نقصان دہ ہے۔ ان کے مطابق اس پالیسی کے ذریعہ اچھوتوں کو اسکول کے باہر ہی بیٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کھرگے نے اعلان کیا کہ کانگریس اس پالیسی کی خامیوں کو ایوان میں اٹھائے گی۔ 
 ’نئی ایجوکیشن پالیسی: ایک مولیہ ماپن ‘   کے عنوان سے منعقدہ یہ ویب نار’زوم‘ پر تقریباً ۳؍ گھنٹے تک جاری رہا۔    ایم پی سی سی کے  صدر اور وزیر برائے محصول بالا صاحب تھورات کی  قیادت میں منعقدہ اس ویب نار میں  ملکارجن کھرگے  مہمان خصوصی تھے۔ وزیر تعلیم  ورشا گائیکواڑ نے کہا کہ ’’موجودہ پالیسی میں ہم نے ۶؍ سال تک کے بچوں کو اسکول لانے اور انہیں تعلیم کے سلسلہ سے جوڑنے کی کوشش کی لیکن نئی پالیسی کے مطابق چھٹی کے بچے کو ووکیشنل ٹریننگ کے طورپر کسی کارخانہ اور گیراج میں تربیت حاصل کرنے کی چھوٹ دی گئی  ہے جس سے ڈرا پ  آؤٹ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘‘
 انہوںنے کہا کہ ’’  نئی پالیسی میںتیسری، پانچویں اور آٹھویں  میںبورڈ امتحانات لینے کہا جارہا ہے جس سے طلبہ پر بورڈ امتحانات کا خوف رہے گا اور وہ شدید دباؤ میں رہیں گے ۔فی الحال دسویں او ربارہویں کے بورڈ امتحانات میں ۱۶؍ تا ۱۷؍ لاکھ طلبہ شرکت کرتے ہیں لیکن جب ان دونوں بورڈ امتحانات کو ختم کر کے گیارہویں جماعت میں بورڈ امتحان لئے جائیں گے  امتحان منعقد کرانے کا بوجھ بڑھ جائےگا۔‘‘
 کیتکرن ے مشورہ دیا کہ اس پالیسی کی پوری شدت کے ساتھ مخالفت کرنا  چاہئے  اور اسے رد کرنا چاہئے۔کانگریس مہاراشٹر اسٹورڈنس ونگ کے صدرعامر شیخ نے بتایاکہ  پالیسی کے نقصانات کے تعلق سے طلبہ اور اساتذہ کو بیدار کیا جائے گا اور اس کی مخالفت کی جائے گی۔بالا صاحب تھورات نے کہا کہ ’’ایجوکیشن پالیسی کو تبدیل  ہوتی رہی ہے اس سے ہمیں انکار نہیں ہےمگرجب بھی نئی پالیسی بنانی ہوتی ہے اس کا مسودہ تیار کیا جا تا ہے اس پر تبادلۂ خیال کیا جاتا ہے اور غور و خوض اور مشوروں کے بعد پالیسی کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔ لیکن مودی حکومت نے ایسا نہیں کیا  بلکہ کابینہ میں اسے منظور کر لیا ہے۔ 
 مہاراشٹر پرائمری ایجوکیشن سنگٹھنا کے سیکریٹری ایس ڈی بیروڈ نے کہا کہ ’’ فی الحال  دسویں،بارہویں اور گریجویشن (۱۰-۲-۳)کا پیٹرن  نافذ ہے لیکن نئی پالیسی  میں پیٹرن تبدیل کیا گیا ہے ۔ ۵۔۳۔۳۔۴؍  یہ پیٹرن لایا گیا ہے اس سے مہاراشٹر کے اسکولوں کو دھچکا لگے گا۔‘‘ 

  مہاراشٹر پرائمری ایجوکیشن سنگٹھنا کے سیکریٹری ایس ڈی بیروڈ  نے کہا کہ ’’ اسکول سموے یوجنا کے تحت ۱۰ ؍اسکولوں کو ملا کر  اس کا ایک نگراں بنایاجارہاہے۔ اگر ۱۰ ؍ اسکولوں کی ذمہ داری ایک ٹیچر پر لادی جائے گی تو تعلیمی معیار میں کمی آئے گی اور اساتذہ پر کام کا بوجھ بھی بڑھے گا۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک اسکول کا ایک ہیڈ ماسٹر ان کی ذمہ داری ادا کرنے میں ہی مصروف رہتا ہے اور اس پر کام کا شدید بوجھ ہوتا ہے تو  جب ۱۰؍ اسکولوں کی ذمہ داری ایک ہی پر ڈال دی جائے گی تو اس کا کیا حال ہوگا۔‘‘ انہوں نے  مڈ ڈے میل میں بھی بدعنوانی   کا اندیشہ  ظاہر کیا ساتھ ہی کہا ہے کہ ’’ایجوکیشن کی میٹنگ نہ ہو اس کیلئے این جی او کو مدد دینے کی جانب متوجہ کرنے کی بات کہی گئی ہے جس سے محسوس ہوتا ہے حکومت اپنی ذمہ داری سے بھاگ رہی ہے۔‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK