• Thu, 16 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

طالب علم نجیب احمد کی پراسرارگمشدگی کو۹؍سال گزرگئے،طلبہ کا احتجاج

Updated: October 16, 2025, 12:35 AM IST | New Delhi

جے این یو میں ’ایم ایس ایف‘،’فرٹرنٹی موومنٹ‘ ،’ایس آئی او‘اور ’باپسا‘ کا مشترکہ مظاہرہ،سیکڑوں طلبہ کی شرکت، نجیب کہاں ہے؟ کے نعروں سے کیمپس گونج اٹھا

Students can be seen raising slogans of justice for Najeeb Ahmed.
نجیب احمد کے لئے انصاف کا نعرہ بلند کرتے ہوئے طلبہ دیکھے جاسکتے ہیں

جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالب علم نجیب احمد کی پراسرار گمشدگی کو ۹؍سال گزرگئے ہیں لیکن اب تک پولیس اور انتظامیہ اسے ڈھونڈ نہیں پائے ہیں۔۱۵؍ اکتوبر کواس جبری گمشدگی کو نو سال مکمل ہو نے پر طلبہ نے احتجاج کیا اوور ایک بار پھر کیمپس انصاف کے نعروں سے گونج اٹھا۔ ’مکتوب میڈیا‘کی تفصیلی رپورٹ  کے  مطابق منگل کی رات برسا امبیڈکر پھلے اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن(باپسا)، فرٹرنٹی موومنٹ، اور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ایم ایس ایف)  کے اراکین نے’’ نجیب کو انصاف دو‘‘ کے نعرے کیساتھ زبردست احتجاجی مارچ کیا۔ مظاہرین نے جوابدہی کا مطالبہ کرتے ہوئے وہ سوال بلند کیا جو گزشتہ نو برسوں سے گونج رہا ہے:’’نجيب کہاں ہے؟‘‘
نجیب کی گمشدگی کےمتعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے
 خیال رہے کہ نجیب احمد اتر پردیش کے بدایوں کے رہائشی اور جے این یو میں ایم ایس سی بایوٹیکنالوجی کے پہلے سال کے طالب علم تھے۔ الزام ہے کہ آر ایس ایس کی طلبہ ’اے بی وی پی ‘  کے اراکین  نے انہیں ان کے ہوسٹل کے باہر سے اغوا کر لیا تھا۔ جون ۲۰۲۵ء میں دہلی کی ایک عدالت نے سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ قبول کر لی، اور کیس کو بند قرار دے دیا۔
کئی ایجنسیوں نے تفتیش کی لیکن...
 گمشدگی کے اس معاملے کی تحقیقات کئی اعلیٰ ایجنسیوں نے کیں  جن میں دہلی پولیس، اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم(ایس آئی ٹی )، کرائم برانچ، اور آخر میں سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن(سی بی آئی )  نے۔ تاہم، کوئی بھی نجیب کا سراغ نہ لگا سکی، اور آج ۹؍ برس بعد بھی اس کا کوئی پتہ نہیں ہے۔
 نجیب کی والدہ فاطمہ نفیس نے مکتوب سے گفتگو میں کہا کہ’’ ان ایجنسیوں نے میرے خوابوں اور انصاف کے تصور کو ناکام بنایا، لیکن مجھے یقین ہے کہ میرا بیٹا اب بھی زندہ ہے اور ہمارے درمیان ہے۔‘‘
مارچ کہاں سے نکلا اور شرکاء نے کیا کہا؟
 یہ مارچ جے این یو کے گنگا ڈھابہ سے شروع ہوا اور مختلف ہوسٹلز، بشمول ماہی-مندوی ہوسٹل (جہاں سےنجیب لاپتہ ہوا تھا)، سے گزرتا ہوا انصاف کے نعروں کے ساتھ آگے بڑھا۔ مظاہرین نے ’’نجيب کہاں ہے؟، دہلی پولیس مردہ باد، سی بی آئی مردہ باد، وائس چانسلر شرم کرو، آر ایس ایس اور اے بی وی پی مردہ باد، اور نجيب کو انصاف دو‘‘ کے نعرے لگائے۔
 بی اے پی ایس اے(باپسا) کے صدر اویچل وارکے نے کہا کہ’’ہم یہاں ایک ہی سوال کے جواب کے لیے جمع ہوئے ہیں  نجيب کہاں ہے؟‘‘ انہوں نے الزام لگایا کہ اے بی وی پی کے اراکین نے پہلے نجيب کو زدوکوب کیا اور پھر اسے غائب کرنے کی دھمکی دی۔ انہوں نے بائیں بازو کے طلبہ لیڈران پر بھی تنقید کی، خاص طور پر اس وقت کے جے این یو اسٹوڈنٹس یونین صدر موہت پانڈے پر، جنہوں نے ایک بیان کی حمایت کی جس میں نجيب کو’ذہنی طور پر غیر مستحکم‘کہا گیا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ’’یہ بیانیہ اُن لوگوں نے گھڑا جو خود کو ترقی پسند کہتے ہیں، تاکہ تحقیقات کو روکا جا سکے۔ بائیں بازو والے مظلوموں اور اقلیتوں سے ووٹ مانگتے ہیں، لیکن جب انکے ساتھ کھڑا ہونا ہو تو خاموش رہتے ہیں۔‘‘
 امبیڈکر وادی کارکن یوگیندر نے کہا کہ جب بھی کوئی جرم ہوتا ہے تو متاثرہ کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے، یہ ریاستی نظام کی عکاسی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہر تعلیمی ادارے، ہر دفتر، ہر جگہ دلت، آدیواسی، مسلمان اور خواتین دباؤ کا شکار ہیں۔ انہیں خودکشی تک پہنچا دیا جاتا ہے، پھر کہا جاتا ہے کہ ان کی ذہنی حالت خراب تھی۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ ان کی ذہنی حالت کیوں خراب ہوئی۔ یہ نظام خود وہ دباؤ پیدا کرتا ہے۔‘‘
  ایس آئی او کے صدر عبدالحفیظ نے کہا کہ’’ نجیب کی گمشدگی سے پہلے جو جھگڑا ہوا وہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، بلکہ ایک منصوبہ بند سازش تھی تاکہ جے این یو سے نجیب کو غائب کیا جا سکے۔اس کا مقصد مسلم، دلت اور پسماندہ طلبہ کو خوفزدہ کرنا تھا تاکہ وہ یہاں پڑھنے آنے سے ہچکچائیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’نجیب کی گمشدگی اور روہت ویمولا کی ادارہ جاتی موت الگ الگ واقعات نہیں بلکہ شناخت  مسلم، دلت، مظلوم ہونے کا سوال ہیں۔‘‘
 فرٹرنٹی موومنٹ کے لیڈر لبیب بشیر نے کہا’’ ۸؍ برس گزر گئے، لیکن سوال آج بھی وہی  ہے، نجیب کہاں ہے؟ کون ذمہ دار ہے؟ اس کی گمشدگی کے گرد جو خاموشی ہے، وہ حادثاتی نہیں، بلکہ ملی بھگت کی خاموشی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ نجیب کو شروع دن سے تشدد پسند، غیر مستحکم، اور اشتعال انگیزکہا گیا یہ سب منظم اسلاموفوبک بیانیہ تھا تاکہ حقیقت چھپائی جا سکے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’ملزمین سے پوچھ گچھ نہ کرنا، ثبوتوں کو چھانٹ کر جمع کرنا، اور ادارہ جاتی جواب دہی کی کمی ظاہر کرتی ہے کہ اسلاموفوبیا ریاستی ڈھانچوں میں کس قدر جڑا ہوا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا:’’نجیب کا کیس صرف ماضی کی یاد نہیں بلکہ سیاسی ضمیر کا معاملہ ہے۔ ہر گزرتا سال یہ بتاتا ہے کہ کس طرح مسلم طلبہ کو مجرم بنا کر ان کی نگرانی کی جاتی ہے اور ان کی عزت چھینی جاتی ہے۔‘‘ ایم ایس ایف کے شاہد نے کہا کہ  ’’۹؍ سال گزر گئے، ایک طالب علم، ایک بیٹا، ایک دوست اب بھی غائب ہے۔ ہم نہیں بھولے، ہمارا یاد رکھنا ہی مزاحمت ہے۔ ہم انصاف مانگتے رہیں گے‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK