ناندیڑ کے کئی اسکولوں میں طلبہ کے بینچ ایک کے پیچھے ایک لگانے کے بجائے ، ایک ساتھ ایک کے بغل میں ایک لگائے جا رہے ہیں
EPAPER
Updated: July 30, 2025, 7:45 AM IST | Z A khan | Nanded
ناندیڑ کے کئی اسکولوں میں طلبہ کے بینچ ایک کے پیچھے ایک لگانے کے بجائے ، ایک ساتھ ایک کے بغل میں ایک لگائے جا رہے ہیں
عام طور پر کلاس روم میں پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والے بچوں کو شرارتی یا پھر پڑھائی میں کمزور تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی شبیہ دیگر طلبہ کے مقابلے میں ’کم ذہین‘ طلبہ کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ احساس کم تری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اسی احساس کم تری کو دور کرنے اور طلبہ میں مساوات پیدا کرنے کی غرض سے ’ نو بیک بینچرس‘ ماڈل کیرالا کے اسکولوں میں متعارف کروایا گیا تھا جسے اب ناندیڑ کے کئی اسکولوں میں آزمایا جا رہا ہے۔
ناندیڑ میونسپل کارپوریشن کی حدود میں آنے والے بھیم نگر، امبیڈکر نگر، گنیش نگر، قلعہ روڈ اور برہماپوری جیسے علاقوں ے اسکولوں میں کلاس روم کے اندر طلبہ کو بٹھانے کی ترتیب بدلی گئی ہے۔ یہاں بچوں کے بیٹھنے کی بینچیں ایک کے پیچھے ایک لگانے کے بجائے دیوار سے لگا کر دائرہ نما حلقے کی شکل میں ایک کے بغل میں ایک لگائی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے تمام طلبہ ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں ، کوئی کسی کے آگے یا پیچھے نہیں ہوتا۔ بینچوں کی اس ترتیب کی وجہ سے کلاس روم کے درمیان میں اچھی خاصی جگہ خالی رہ جاتی ہے۔ ٹیچر اس جگہ میں کھڑے ہو کر پڑھاتا ( پڑھاتی) ہے ۔ وہ جب چاہے جب کسی بھی بچے کی طرف دیکھ سکتا ہے۔ اس کے پاس جا سکتا ہے۔ یعنی ٹیچر اور اس کے طالب علم کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں رہ جاتا۔
یہ نئی نشست پالیسی اس خیال پر مبنی ہے کہ کلاس روم میں کسی کو پچھلی قطار میں نہ بٹھایا جائے، بلکہ تمام طلبہ کو متوازی، یکساں اور مساوی جگہ فراہم کی جائے تاکہ ہر طالب علم کو مساوی توجہ مل سکے۔ اس سے طلبہ میں اعتماد پیدا ہوتا ہے اور وہ خود کو کمتر یا نظرانداز محسوس نہیں کرتے۔ اس اقدام کی ترغیب مقبول ملیالم فلم ’تھنماترا شری کُٹّن‘ سے حاصل کی گئی، جس میں تعلیمی مساوات کو خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ناندیڑ میونسپل اسکولوں میں اس تبدیلی کا آغاز تعلیمی افسر وینکٹیش چودھری کی رہنمائی میں ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف نشستوں کی تبدیلی نہیں بلکہ تعلیم میں برابری، شرکت اور خود شعوری کے فروغ کی ایک مہم ہے۔ ان کے مطابق جن جماعتوں میں طلبہ کی تعداد کم ہے، وہاں یہ ترتیب فوری طور پر نافذکر دی گئی ہے، اور آئندہ دنوں میں اسے تمام کلاسیس میں نافذ کیا جائے گا۔
اس نئے ماڈل سے اساتذہ کیلئے تمام طلبہ پر یکساں توجہ دینا آسان ہو گیا ہے۔ طلبہ کی جماعت میں شمولیت اور سرگرمی میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تعلیم میں مساوات، انصاف اور حصہ داری جیسے اصولوں کو فروغ ملا ہے، اور بیک بینچرس جیسی منفی اصطلاح کا خاتمہ ممکن ہوا ہے۔ اس ماڈل کے علاوہکیرالا کے ایک اورتجرباتی تعلیمی ماڈل ’واٹر بیل‘ کو بھی نافذ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ علاقائی تعلیمی ڈائریکٹر ڈاکٹر دتاتریہ مٹھ پتی نے اس اقدام کی بھرپور ستائش کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسکول اسی طرح مثبت تجربات کرتے رہے تو ملک میں تعلیم کا منظرنامہ ضرور روشن ہوگا۔