ا نہوں نے خبر دار کیا کہ غزہ پر قبضہ ایک اور جنگ شروع کرنے کے مترادف ہوگا، اس کی قیمت بہت بھاری ہوگی، انسانی جانوں کے لحاظ سے بھی اور اقتصادی لحاظ سے بھی۔
EPAPER
Updated: August 08, 2025, 12:24 PM IST | Agency | Tel Aviv
ا نہوں نے خبر دار کیا کہ غزہ پر قبضہ ایک اور جنگ شروع کرنے کے مترادف ہوگا، اس کی قیمت بہت بھاری ہوگی، انسانی جانوں کے لحاظ سے بھی اور اقتصادی لحاظ سے بھی۔
غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کے منصوبے کےمتعلق اسرائیلی حکومت میں سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں جبکہ اس دوران اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ نے کہا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم نیتن یاہو کو مطلع کر دیا ہے کہ غزہ پر قبضہ کرنا ایک ’انتہائی سنگین غلطی‘ ہو گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ عموماً وزیر اعظم کے ساتھ ہونے والی بند کمرہ ملاقاتوں کی تفصیلات ظاہر نہیں کرتے، مگر اس معاملے میں انہوں نے اپنا موقف واضح کرنا ضروری سمجھا۔لپیڈ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو ایسی جنگ میں داخل نہیں ہونا چاہیے جس کے لیے عوامی حمایت موجود نہ ہو اور موجودہ صورت حال میں زیادہ تر اسرائیلی اس جنگ میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ اس جنگ کی قیمت بہت بھاری ہو گی، خواہ وہ انسانی جانوں کے لحاظ سے ہو یا اقتصادی طور پر جس کا تخمینہ اربوں شیکل تک پہنچ سکتا ہے۔لیپڈ نے غزہ پر قبضے کی بجائے ایک متبادل تجویز پیش کی جس میں مصر کے ساتھ مل کر ایک متبادل انتظامیہ قائم کرنے کی بات کی گئی ہے جو غزہ کا نظم و نسق سنبھالے، نہ کہ اسرائیل۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ توجہ کا مرکز حماس کا خاتمہ ہونا چاہئے اور یہ ہدف صرف وقت، محنت اور منصوبہ بندی سے حاصل ہو سکتا ہے نہ کہ غیر مدبرانہ فوجی مہم جوئی سے۔ اس بیان سے کچھ دیر قبل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایک بار پھر بڑے پیمانے پر غزہ میں نئی کارروائی اور مکمل قبضے کا عندیہ دیا تھا۔ یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا جب جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کیلئے بالواسطہ مذاکرات تعطل کا شکار ہو چکے ہیں اور بات چیت بند گلی میں جا پہنچی ہے ۔ یہ بات اسرائیلی ٹی وی ’چینل۱۲‘ نے بتائی۔ادھر اسرائیلی چیف آف اسٹاف ایال زامیر نے اشارہ دیا کہ وہ ہر سیاسی فیصلے پر عمل کریں گے، تاہم وہ اب بھی غزہ پر قبضے کے مخالف ہیں اور مرحلہ وار محاصرے کی حکمت عملی کے حامی ہیں۔
اس دوران اسرائیلی سیکوریٹی کابینہ کی جمعرات کو وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں اہم میٹنگ ہوئی جس کی تفصیلات خبر لکھے جانے تک سامنے نہیںآئی تھیں لیکن میٹنگ کا ایجنڈا غزہ پر مکمل قبضے سے متعلق تجاویز سے متعلق ہی تھا ۔ واضح رہےکہ اس معاملے میں اسرائیلی حکومت اندرونی تقسیم کا سامنا کر رہی ہے اور فوجی اور سیاسی قیادت کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔
نیوز ویب سائٹ ’ایکسیوس‘ کے مطابق اسرائیلی کابینہ کا اجلاس ایک اہم موڑ ہونے کی توقع ہے کیونکہ اس میں غزہ پٹی پر مکمل کنٹرول اور قبضہ کرنے کے مقصد کے ساتھ فوجی کارروائیوں کو بڑھانے کے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا جانے والا تھا ۔امکان ہےکہ ان علاقوں میں فوجی کارروائیوں پر بات ہوئی جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہاں اسرائیلی یرغمالوں کو رکھا گیا ہے۔
اسرائیل کے ’چینل۱۲ ‘نے رپورٹ کیا ہے کہ امکان ہےکہ کابینہ شام کی اپنی میٹنگ کے دوران آپریشنز کو وسعت دینے، غزہ شہر پر قبضہ کرنے اور تقریباً دس لاکھ فلسطینیوں کو جنوب کی طرف بے گھر کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ اس تناظر میں چینل نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ غزہ کے حوالے سے اسرائیلی فیصلہ سازی کے عمل میں مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتے اور اسرائیل کو غزہ پٹی میں آزادی سے کوئی بھی کارروائی کرنے کی اجازت دیں گے۔
اس کے علاوہ ایک امریکی موقف میں اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابی نے اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن غزہ پٹی میں امداد کی تقسیم کے مراکز کی توسیع کے لیے فنڈز فراہم کرے گا۔ اس طرح امدادی مراکز کی تعداد چار سے بڑھ کر۱۶؍ ہو جائے گی۔ اسرائیلی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ یہ قدم فلسطینیوں کو وسطی علاقے سے جنوب کی طرف نکالنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔
اسرائیل میں اس سیاسی اور فوجی بحث کے دوران تل ابیب میں غزہ پٹی پر قبضے کے منصوبے پر کابینہ کی بحث کے خلاف احتجاجی مارچ کیاگیا۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ نیتن یاہو حکومت سیاسی تحفظات کو ایک طرف رکھے اور یرغمالوں کی رہائی اور جنگ کو روکنے کے لیے معاہدے کی طرف بڑھنے کا کام کرے۔ غزہ پٹی میں زمینی سطح پر ہونے والی دیگر پیش رفت میں ایک ہی خاندان کے ۳؍ فلسطینی اسرائیلی فضائی حملے کے بعد مارے گئے، حملے میں ایک اپارٹمنٹ کی عمارت کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس دوران انسانی امداد روک کر غزہ میں جبری قحط مسلط کرنے کی اسرائیلی سازش سے غذائی قلت کے کیسز خطرناک حد تک بڑھ گئے۔عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں غذائی قلت کے کیسز کی تعداد بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں میں غذائی قلت سے ۴؍ بچوں سمیت مزید۱۵؍ فلسطینی فوت ہوگئے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق غزہ میں بھوک کی شدت سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔عالمی ادارۂ صحت نے بتایا ہے کہ گزشتہ ماہ غزہ میں۵؍ ماہ سے کم عمر کے ۱۲؍ ہزار بچوں میں شدید غذائی قلت کی تشخیص ہوئی ہے۔عرب میڈیا کے مطابق مارچ میں شروع ہونے والی اسرائیل کی مکمل ناکہ بندی کے بعد بھوک کی شدت سے اب تک۹۶؍ بچوں سمیت ۱۹۷؍ فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔