آئی آئی ٹی بامبے کے سول انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے مطالعہ پر مشتمل رپورٹ میں انکشاف۔ گوونڈی ، ملاڈ، بھانڈوپ اور ملنڈ کے شہری زیادہ متاثر۔
آئی آئی ٹی بامبے کی رپورٹ کے مطابق صرف ۱۷ء۳؍فیصد جھوپڑاواسیوں کو ہی بہتر پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر ہے۔ تصویر:آئی این این
آئی آئی ٹی بامبے کی ایک رپورٹ کے مطابق ممبئی شہر ومضافات میں ہر تیسرے شخص کو مناسب پبلک ٹرانسپورٹ ذرائع میسر نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ہر تین میں سے ایک شخص ایسے مقام پر رہتا ہے جہاں مناسب پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں ہے۔ یہ بات مذکورہ انسٹی ٹیوٹ کے سِوِل انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ نے ایک مطالعہ کے بعد اپنی رپورٹ میں کہی ہے۔اس مطالعہ سے معلوم ہوا ہے کہ صرف ۱۷ء۳؍ فیصد جھوپڑا واسیوں کو بہتر پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت ملتی ہے جبکہ جھوپڑوں سے ہٹ کر عام آبادی میں سے بھی ۳۱ء۴؍ فیصد افراد کو ہی آسانی سے پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب ہے۔ اس مطالعہ میں پایا گیا ہے کہ تقریباً ۳۰؍ لاکھ ۹۵؍ ہزار افراد ایسے مقامات پر رہتے ہیں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے اچھے ذرائع دستیاب نہیں ہیں۔
آئی آئی ٹی بامبے کے پروفیسر گوپال پاٹل، اسی انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ اسکالر منیش یادو اور سنگا پور میں اے اسٹار انسٹی ٹیوٹ آف ہائی پرفارمنگ کمپیوٹنگ کی سینئر سائنسداں راکھی منوہر میپّرم بھٹ نے مل کر یہ ریسرچ کیا جس میں معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ ممبئی کےشہریوںکو سرکاری بسوں کے اسٹاپ یا بس ڈپو، میٹرو اسٹیشنوں اور لوکل ٹرینوں کے اسٹیشنوں تک پہنچنا کتنا آسان یا مشکل ہے۔ان کی ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی کہ تقریباً ۶۵؍ لاکھ لوگ ایسے مقامات پر رہتے ہیں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت تو دستیاب ہے لیکن ان کی تعداد عوام کی ضرورت کے مقابلے بہت کم ہے جبکہ ۱۷؍ لاکھ افراد ایسے مقامات پر رہتے ہیں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی بہت زیادہ مانگ ہے لیکن دستیاب نہیں ہے اور عوام کیلئے ان تک پہنچنا مشکل کام ہے۔مذکورہ ٹیم کے تجزیہ میں یہ بھی معلوم ہواہے کہ جھوپڑوں میں نہ رہنے والے ۳۱ء۴؍ فیصد افرادکو پبلک ٹرانسپورٹ کی بہترین سہولیات دستیاب ہیں اور ان کے مقابلے میں صرف ۱۷ء۳؍ فیصد جھوپڑا واسی ایسے ہیں جنہیں اسی سطح کی اچھی سہولت ملتی ہے۔ ان کے مطابق شہر کی تقریباً ۳۱ء۸؍ فیصد آبادی ایسے مقامات پر رہتی ہے جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات بہت اچھی نہیں ہیں۔
اس مطالعہ میں بنیادی طور پر یہ دیکھا گیا تھا کہ عوام کیلئے ’پبلک ٹرانسپورٹ ایکسیسیبلٹی لیول‘ (پبلک ٹرانسپورٹ تک رسائی کی سطح) کیا ہے جس میں یہ معلوم کیا گیا ہے کہ لوگ کتنی آسانی سے گاڑیوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا کہ اسٹاپ یا اسٹیشن کتنے فاصلے پر موجود ہیں، گاڑیاں کتنے وقفہ سے چلتی ہیں اور ان پر کتنا انحصار کیا جاسکتا ہے اور ان گاڑیوں کی مدد سے سڑکیں اور راستے ایک دوسرے سے کس حد تک جڑے ہوئے ہیں۔ دوسرے نمبر پر ’ٹرانزٹ گیپ(فاصلہ)‘ معلوم کیا گیا کہ ان سہولتوں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے اور ’سوشل ولنرایبیلٹی انڈیکس(سماجی کمزوری کا انڈیکس) کے ذریعہ یہ معلوم کیا گیا کہ سماج کے کس طبقہ کو مالی کمزوری وغیرہ کی وجہ سے آمدورفت میں دشواری پیش آتی ہے۔
اس مطالعہ میں ایک سنگین مسئلہ یہ سامنے آیا کہ تقریباً ۳۲ء۵؍ فیصد لوگ ایسے ہیں جو مالی پریشانی کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ پر زیادہ انحصار کرتے ہیں لیکن ان کے علاقوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی کم ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں کی تعداد بھی مانگ کے مقابلے بہت کم ہے۔
اس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جنوبی ممبئی اور مغربی مضافات جہاں اکثر و بیشتر متمول طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں ،وہاں لوکل ٹرینوں، بسوں اور میٹرو سب کی بہتر سہولیات دستیاب ہیں۔ اس کے مقابلے شمالی اور مشرقی علاقوں میں جہاں جھوپڑے، مزدور اور غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے، وہاں یہ سہولیات بھی کم ہیں اور گاڑیوں کی آمدورفت کے درمیان وقفہ بھی بہت زیادہ ہے۔ ان میں بی ایم سی کے ’ایم ایسٹ وارڈ‘(گوونڈی)، ’پی نارتھ وارڈ‘ (ملاڈ)، ’ایس وارڈ‘ (بھانڈوپ) اور ’ٹی وارڈ‘ (ملنڈ) میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات بہت زیادہ خراب ہیں۔ان علاقوں میں مالی طور پر بہت زیادہ پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے بھی رہتے ہیں جس کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کی خراب حالت ان کیلئے دوسروں کے مقابلے اور زیادہ پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔
اس مطالعہ کی بنیاد پر اس ٹیم نے تجویز پیش کی ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے نئے روٹ اور اسٹیشن شامل کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ منصوبہ بند طریقہ سے مسائل معلوم کرکے ان کے حل پیش کرنا، مثلاً جن علاقوں میں مطالبہ زیادہ ہے اور گاڑیاں کم ہیں ، وہاں مانگ کے حساب سے گاڑیاں وغیرہ فراہم کرنے سے فائدہ ہوگا۔