Inquilab Logo

کرلا روٹی بینک کے منتظمین نے ترکی میں امدادی سرگرمیاں انجام دیں،دوبارہ جانے کا ارادہ

Updated: March 05, 2023, 12:16 PM IST | Kazim Shaikh | Mumbai

انطاکیہ میں ریلیف کا کام کرنے کے بعد لوٹنے والےروٹی بینک کے ذمہ داران نے ترکی کے دل دہلا دینے والے حالات بیان کئے، رمضان سے قبل سحر وافطار کا انتظام کرنےپھرجائیں گے

The plight of Turkey`s victims, who were once prosperous, can now be seen queuing for food.
ترکی کے متاثرین کی زبوں حالی دیکھی جاسکتی ہے جو کبھی خوشحال رہے ہونگے وہ آج کھانا حاصل کرنے کی قطار میں کھڑے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں

ترکی میںشدید زلزلہ کی وجہ سے کچھ شہر پوری طرح تباہ ہوگئے تھے۔وہاں کی صورتحال پڑھ اور دیکھ کر ہر دردمند دل تڑپ اٹھا ہے۔ایسے میںدنیا بھر سے سرکاری اور غیر سرکاری طور پر امداد بھیجی جارہی ہے۔جبکہ کچھ لوگ جو دوسروں کی تکلیفیں دیکھ کر تڑپ اٹھتےہیں خود کو وہاں جاکر مدد کرنے سے نہیں روک پارہے ہیں۔ایسے ہی کرلا کپاڑیا نگر کے ۴؍افراد جو جنہوں نےیہاں روٹی بینک شروع کیا ہے خود کو وہاں جاکر امدادی کام کرنے سے نہیں روک سکے اور وہاں جاکر انہوں نے زلزلہ متاثرین کیلئے کھانے پینے کا انتظام کیا۔ گزشتہ دنوں جب وہ وہاں امدادی سرگرمیوں کے بعد لوٹے تو نمائندہ انقلاب نے ان سے ملاقات اور انہوں نے وہاں کے حالات سے آگاہ کیا۔
 کرلا کپاڈیہ نگر میں’روٹی بینک‘کےبانی اور صدر فیصل سارنگ  اور ان کے ساتھی شاہد کنتھاریہ اور آصف کیتیکر زلزلہ متاثرین کی مدد کیلئےریلیف کا سامان لےکرترکی گئے تھے۔جب یہ لوگ ترکی جارہے تھے تو ممبئی میں ہی ہوائی اڈے پر آصف سید نامی ایک شخص سے ملاقات ہوگئی جو وہاں کاروبار کے سلسلے میں جارہے تھے۔ وہ ان کے ترکی والوں کی مدد کے جذبہ سے متاثر ہوگئے اور امدادی سرگرمیوں میں وہ بھی شامل ہوگئے۔
  ترکی سے واپسی پر اس نمائندےسےگفتگو کرتےہوئے روٹی بینک کے کارکنوں نے بتایا کہ سب سے پہلےہم چاروں ترکی کےاہم شہر استنبول پہنچے اور وہاں سے سرحدی علاقے میں واقع انطاکیہ  شہر پہنچےجہاںپر قیامت صغریٰ کا منظر تھا۔پورا شہر ختم ہوچکاتھا اور شہر کی سڑکوں کے دونوں جانب جہاں رہائشی مکانات اور تجارتی ادارے ہوا کرتے تھے ملبےکےڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔دور دراز کے علاقوں میں کوئی اکا دکا بلڈنگ کھڑی نظر آبھی گئی تومعلوم ہوا کہ وہ بھی صرف ڈھانچہ ہے ان کے گھر تباہ ہوچکے ہیں۔
 انہوںنے بتایا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق زلزلے میں مرنے والوں کی تعداد ہزاروں ہےلیکن ترکی کے شہریوں کادعویٰ ہے کہ مہلوکین کی تعداد  ۲؍ لاکھ سے بھی زیادہ ہے اور جب تدفین کا کوئی خاص انتظام نہیں ہوسکا تو مہلوکین کی اجتماعی نماز جنازہ ادا کرکے انہیں ایک ساتھ ہی دفن کردیا گیا۔
 آصف کیتیکر نے بتایا کہ انطاکیہ میں شاید ہی کوئی رہائشی، تجارتی عمارت یا مسجد و مدرسہ کی عمارت تباہ ہونے سے بچی ہوگی۔البتہ ترکی کے دوسرے شہروں سے آئے ہوئے مدارس کے ذمہ داران جگہ جگہ کیمپ اور خیمے لگاکر متاثرین کے کھانے پینے اور دیگرضروریا ت کی چیزوں کا انتظام کرنےکی کوشش کر رہےہیں۔انھوںنے بتایا کہ ترکی میں ریلیف کا کام کرنے والے مقامی افراد سے ہم نے ملاقات کی  اور ان کے ایک خیمےمیں شامل ہوگئےجہاں پر روزانہ  ۲؍ ہزار متاثرین کیلئےکھانا تیار کیا جا رہا ہے۔پہلے دن  چونکہ ہم لوگوں کواندازہ نہیں تھا، اس لئےہم نے بھی ۲؍ ہزار افراد کے کھانے کاانتظام کیا۔اس طرح ہمارے کیمپ میں ۴؍ ہزار افراد کا کھانا تیار ہوگیالیکن جب اسےتقسیم کیا گیاتومحسوس ہواکہ یہ کھانابھی کم تھا۔دوسرےدن سےہم نےمزید ایک ہزار افراد کےکھانے کا انتظام بڑھا کر ۳؍ ہزاراورمجموعی طور یومیہ ۵؍ ہزار افراد کے کھانے کا انتظام کرنےلگے۔ اسی دوران متاثرین کو  روز مرہ کےاستعمال کی اشیا بھی تقسیم کیں، خیموں میں پناہ لینے والے متاثرین کو کمبل اور ننھے بچوں کو کھلونے بھی  دیئے گئے۔
 آصف کیتیکر نے بتایاکہ انطاکیہ میںہم متاثرین کی ممکنہ مدد کے کام میں مشغول ہی تھے کہ اچانک ایک مرتبہ پھر زلزلہ آگیااور جو کچھ بچی ہوئی عمارتیںتھیں وہ بھی تباہ ہوگئیں۔ زلزلہ آنے پر خوف سےہم انطاکیہ سے استنبول پہنچ گئے اور وہاں جا کر اطمینان کا سانس لیا۔ 
 آصف کہتےہیں کہ ترکی میں ریلیف کے کام کےدوران بھی انہوں نےہندوستان میں کئی افراد سے رابطہ قائم کیا اور الحمدللہ ترکی ریلیف فنڈ میں مزید  اچھی رقم جمع ہوگئی ہے اور ہم لوگ پھر ایک بار رمضان سے چند روز قبل ترکی کے متاثرین کیلئےسحری اور افطاری کے انتظامات کیلئے وہاں جائیںگے۔
 شاہد کنتھاریہ نے کہا کہ انطاکیہ اور نوردا کے لوگوں کےپاس کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ زلزلوں سے یہ لوگ کئی برس پیچھےچلے گئے ہیں اور اب ان کی بازآبادکاری میں کئی برس لگ جائیں گے۔جس وقت یہ لوگ واپس ہندوستان کیلئے روانہ ہوئے تھے، اس وقت متاثرین کے لئے روزانہ صبح ناشتے اور ۲؍ وقت کےکھانے کی ضرورت بدستور قائم تھی۔ رات کو ترکی کی ’آفت کمپنی ‘کی جانب سے جگہ جگہ لگائے گئے چمڑے کے خیموں میں لوگ رہ رہے ہیں لیکن وہاں بھی سردی سےبچنےکیلئےکمبل اور روزانہ کے استعمال کی دیگراشیاکی بھی اشد ضرورت ہے۔اس دوران ترکی حکومت بھی زندگی کومعمول پر لانے کیلئے ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔ بقول شاہد ترکی کی کرنسی لیرا  کی قدر ۵؍ہندوستانی روپے کے برابر ہے۔

roti bank Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK