Inquilab Logo

ہماری شرح نمو کم ہوئی،ملکی معیشت کیلئے اگلا سال مشکل بھرا ہوسکتا ہے

Updated: December 16, 2022, 12:35 PM IST | New delhi

کانگریس لیڈر راہل گاندھی سےریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر اور ماہر معاشیات رگھو رام راجن کی خصوصی بات چیت، کاروبار،روزگار،زراعت،صنعت ،شیئر بازار اور دیگر موضوعات کا احاطہ کیا

An image from the video shows Rahul Gandhi and Raghu Ram Rajan discussing various economic topics.
ویڈیو سے حاصل کردہ تصویر میں راہل گاندھی اور رگھو رام راجن مختلف معاشی موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے۔

 بھارت جوڑو یاترا میں شرکت کے موقع پر بدھ کو آربی آئی کے سابق گورنر اور ماہر معاشیات رگھو رام راجن نےراہل گاندھی کے ساتھ معاشی مسائل و حالات پر تبادلہ خیال کیا۔  یاترا کے ایک جگہ قیام کرنے پر قریب میں واقع ایک مکان کی چھت پر راہل گاندھی نے رگھورام راجن کا یہ انٹرویو کیا ہے جس کا ویڈیو  ذرائع ابلاغ کے ساتھ سوشل میڈیا پر تیزی سے گردش کررہا ہے۔   اس بات چیت کے دوران رگھو رام راجن نے یہ پیشن گوئی کی کہ اگلا سال ملکی معیشت کے لئے بہت مشکل بھرا ثابت ہوسکتا ہے۔ راجن نے کہا کہ کووڈوباء کے دور میں کام کاروبار بند ہونے کی وجہ سے غریب امیر کے درمیان عدم مساوات اور بڑھ گئی ہے۔ لوور مڈل کلاس کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے،  اس لئے ہمیں  لوور مڈل کلاس کی طرف  دیکھنا ہے، ہمیں پالیسی ان کیلئے بنانی چاہئے۔اس بات چیت کے اہم اقتباس درج ذیل ہیں
آپ آج کی معیشت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
  امسال دقتیں تھیں، نمو سست رفتار ہے، ہندوستان کا ایکسپورٹ کم ہوا ہے۔ کموڈیٹیز کی مہنگائی ہے۔ مہنگائی ترقی کی راہ کا روڑہ ہے۔ معاشی نمو کے اعدادوشمار مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ کورونا وباء کے بعد دقتیں اور بڑھی ہیں اور ہماری شرح نمو کو کم کیا ہے۔ کووڈ قبل بھی ہماری شرح نمو کم تھی۔
ملک میں چار پانچ امیر افراد ،مزید دولتمند ہورہے ہیں، دو ہندوستان بن رہے ہیں، ایک کسانوں اور غریبوں کا اور دوسرا ان ۶-۵؍ سرمایہ داروں کا، اس بڑھتی عدم مساوات پر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
  یہ بہت بڑی دقت ہے۔ کووڈ وباء میں امراء کی آمدنی بڑھ گئی، کیونکہ وہ گھر سے کام کرسکتے تھے لیکن غریب لوگوں کو کارخانے اور فیکٹری جانا تھا، جو بند  تھے۔اس سے  آمدنی بند ہوگئی  اور یہ نابرابری مزید بڑھ گئی ۔
کیا دوسرا سبز انقلاب ہوسکتا ہے؟
  جی بالکل ہوسکتا ہے۔ ہمیں اب نئے طریقے سے سوچنا ہوگا۔ پروسیسنگ پر دھیان دینا ہوگا۔ مقامی مزدور استعمال کرنا چاہئے جو سستا ہے۔ کھیت میں پروسیسنگ یونٹ نصب ہوں، اس سے توانائی کی بچت ہو گی۔
 امریکہ اور باقی دنیا میں کیا ہورہا ہے؟
 امریکہ میں مہنگائی بڑھ رہی  ہے۔ سینٹرل بینک شرح سود بڑھا رہے ہیں۔ اس سے ہمارا ایکسپورٹ کم ہوجائے گا، پیداواری رفتار کم ہوجائے گی۔
مہاراشٹر سے جب میں گزرا تو وہاں لوگ کہہ رہے تھے کہ بنگلہ دیش نے ایکسپورٹ پالیسی سے بہت کچھ کیا ہے، اس پر ہمیں کیاکرنا چاہئے؟
 اوّل تو یہ کہ ان کی سب سے اہم انڈسٹری ٹیکسٹائل ہے، کپڑے بناتے ہیں اور فروخت کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش نے بڑی انڈسٹری کو اجازت دی۔ وہاں لیبر ، خواتین  ہیں، بڑے پیمانے پر بھرتیاں کی گئیں۔
بیلاری میں جینس پروڈکشن کا بڑا مرکز ہے، وہاں ۴ء۵؍ لاکھ سے زیادہ افراد اس کام میں لگے ہوئے تھے۔ گھروں میں جینس کی سلائی ہوتی تھی، جاب ورک پر کام چلتا تھا لیکن جی ایس ٹی ، نوٹ بندی نے سب ختم کردیا۔ آج وہاں ۵۰؍ ہزار ملازم رہ گئے ہیں۔
 اس سیکٹر کو سستے قرض فراہم کرنے چاہئے۔ سرکاری پالیسی میں استحکام ہونا چاہئے ایسا نہ ہوکہ آج کچھ ہو اور کل کچھ اور ہو۔ 
 آپ آربی آئی میں تھے، ایک سرمایہ دار ۲؍ لاکھ کروڑ روپے کا قرض لے سکتا ہے، لیکن چھوٹا کاروبار کرنے والا بینک سے قرض لینے جاتا ہے تو اسے بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے، یہ کیوں ہوتا ہے اور اسے کیسے بدل سکتے ہیں؟
 بالکل بدل سکتے ہیں ، چھوٹے بزنس ہاؤس ہیں، ان کا تو ایک ریوینیو اسٹریم ہے۔ فِن ٹیک کے بعد اس سمت میں کام شروع ہوگیا ہے۔
ملک میں ایک کمپنی ایسی نہیں ہے جو پہلے چھوٹی تھی اور اب بڑی ہوگئی ہے۔ امریکہ میں ۵-۷؍ سال میںچھوٹی کمپنی، بڑی کمپنی بن جاتی ہے، یہ ہندوستان میں کیوں نہیں ہوتا ہے؟
 آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ نمو کے لئے مواقع چاہئے۔ جب آپ ترقی کرنا شروع کرتے ہیں تو سرکار مدد کرتی ہے اس سے چھوٹے کاروبار بڑھتے ہیں۔
کسان کہتے ہیں کہ جیسے ہی ان کی فصل آتی ہے، وزارت کامرس ، امپورٹ ایکسپورٹ پالیسی پر فیصلہ کرتی ہے اور ان کی فصل کے دام گرجاتے ہیں؟
 یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، ہم کہتے رہتے ہیں کہ کسان کے لئے ہم ہیں، لیکن ایکسپورٹ  امپورٹ پالیسی ان کے حق میں نہیں ہے۔ پیاز کے دام بڑھتے ہیں، دام گرجاتے ہیں، بیچارے کسان کو نقصان ہوتا ہے۔ ایکسپورٹ امپورٹ کی پائیدار پالیسی ہونی چاہئے۔ اگر دام بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں تو امپورٹ کرسکتے ہیں، ایکسپورٹ پر روک نہیں لگانی چاہئے کیونکہ کسان کا نقصان ہوتا ہے۔
 بے روزگاربڑا مسئلہ ہے، اس کا کیا حل ہے؟
  لوگ سرکاری نوکری چاہتے ہیں کیونکہ وہاں ’جاب سیکوریٹی ‘ ہے، لیکن سرکاری جاب میں بہت کم لوگ کام کرسکتے ہیں۔ اگر ہم اسے بڑھائیں بھی تو صرف ایک فیصد روزگار ہی مل پائے گا۔ ہمیں پرائیویٹ سیکٹر کو آگے بڑھانا ہوگا۔ پرائیویٹ سیکٹر اور زراعت میں تکنیک لے آئیں تو روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ہمیں سروس سیکٹر کو بھی دیکھنا چاہئے۔ 
 سفید انقلاب، سبز انقلاب،کمپیوٹر انقلاب ، اب آگے کونسا انقلاب ہوگا؟
  آگے سروس ریولیوشن ہوگا۔ ہم امریکہ گئے بغیر امریکہ میں کام کرسکتے ہیں۔  ہمیں اب نئے قسم کا سبز انقلاب چاہئے، ہمیں سولر پلانٹ، گرین بلڈنگ چاہئے، جس میں بھرپور مواقع ہیں۔ 
پارلیمنٹ کے سیکوریٹی گارڈز سے میری دوستی ہے، ایک نے بتایا کہ اس نے شیئرز خریدے ہیں اور اسکے پیسے بن رہے ہیں،  معاشی طور سے کمزور لوگ بھی اسٹا ک میں پیسہ لگارہے ہیں،  آپ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
 وہ سمجھتے نہیں کہ اس میں رِسک کتنا ہے۔ ان کے پاس تھوڑا پیسہ ہے، ریٹرن اچھا ہے تو وہ بھی یہاں ڈال رہے ہیں۔ وہ یہ نہی دیکھتے کہ اچھا ریٹرن کس وجہ ہے ۔ امریکہ میں کرپٹو کا معاملہ ہوا، اس کا ریٹرن شاندار تھا۔ بٹ کوائن دو تین ڈالر سے ۶۷؍ ہزار ڈالر تک گیا، پھر نیچے آگیا۔ زیادہ تر غریب لوگ تب خریدتے ہیں جب شیئر کی قیمتیں اونچی ہوتی ہیں، حالانکہ امیر لوگ اس وقت بیچتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK