• Wed, 17 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

راہل گاندھی کا مودی حکومت پر اجارہ داری کے فروغ کا الزام

Updated: December 17, 2025, 9:00 PM IST | New Delhi

کانگریس لیڈر اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے مودی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مختلف شعبوں میں اجارہ داری کو فروغ دے رہی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہندوستان کی معیشت کی باگ ڈور مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے ہاتھ میں دی جائے تاکہ روزگار کے مواقع بڑھیں، صارفین کو سستی اور معیاری مصنوعات میسر آئیں اور منصفانہ مقابلہ یقینی بنایا جا سکے۔

Rahul Gandhi. Photo: INN.
راہل گاندھی۔ تصویر: آئی این این۔

کانگریس کے سینئر لیڈر اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے بدھ کو نریندر مودی کی قیادت والی ہندوستانی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ ملک کے تقریباً ہر شعبے میں اجارہ داری کو فروغ دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پالیسی کا سب سے زیادہ نقصان مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو ہو رہا ہے، جو ملک معیشت اور روزگار کا بنیادی ستون ہیں۔ راہل گاندھی نے اپنے وہاٹس ایپ چینل پر جاری بیان میں کہا کہ ’’اجارہ داری ہندوستان کیلئے ایک لعنت ہے، اور مودی حکومت ہر شعبے اور ہر صنعت میں یہی ماڈل نافذ کر رہی ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں انہوں نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے آئس کریم بنانے والوں کے ایک وفد سے ملاقات کی، جنہوں نے انہیں اپنے مسائل سے آگاہ کیا۔ راہل کے مطابق ان ملاقاتوں سے یہ واضح ہوا کہ حکومت کی پالیسیاں دانستہ طور پر چھوٹے کاروباروں کو کمزور کر رہی ہیں تاکہ بڑے اور بااثر صنعت کاروں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔

یہ بھی پڑھئے: وندے ماترم صرف گانےکیلئے نہیں ہےبلکہ اس میں جو کچھ کہا گیا ہے جو اس کا مقصد ہے اسے نبھانا بھی چاہئے

راہل گاندھی نے نشاندہی کی کہ ملک بھر میں ہزاروں چھوٹے آئس کریم مینوفیکچررز موجود ہیں، جو لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔ ان کے بقول، ان کاروباروں کے گاہک زیادہ تر غریب اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جو سستی اور معیاری مصنوعات پر انحصار کرتے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ جی ایس ٹی کا نظام اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ اس کا بوجھ چھوٹے کاروباروں کیلئے ’’ناقابلِ برداشت‘‘ ہو چکا ہے۔ راہل گاندھی نے کہا کہ اسی مسئلے کے حل کیلئے ایک خصوصی کمپوزیشن اسکیم متعارف کرائی گئی تھی، جس کے تحت کم کاروباری حجم والے ادارے آسان شرح پر جی ایس ٹی ادا کر سکتے ہیں۔ تاہم، ان کے مطابق بی جے پی حکومت نے جان بوجھ کر آئس کریم انڈسٹری کو اس اسکیم سے باہر رکھا، جس سے چھوٹے مینوفیکچررز کو شدید نقصان پہنچا۔

یہ بھی پڑھئے: منریگا کوہٹانا مودی سرکار کیلئے ٹیڑھی کھیر

واضح رہے کہ جی ایس ٹی نظام جولائی ۲۰۱۷ء میں نافذ کیا گیا تھا، جس کا مقصد مختلف بالواسطہ ٹیکسوں جیسے ویلیو ایڈڈ ٹیکس اور سینٹرل ایکسائز ڈیوٹی کو ختم کر کے ایک متحدہ ٹیکس نظام قائم کرنا تھا۔ کمپوزیشن اسکیم کے تحت ۵ء۱؍ کروڑ روپے سے کم سالانہ کاروبار کرنے والے ادارے مقررہ کم شرح پر جی ایس ٹی ادا کر سکتے ہیں۔ راہل گاندھی نے دعویٰ کیا کہ یہی صورتحال دیگر شعبوں میں بھی دہرائی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق صرف وہی بڑے صنعت کار فائدے میں رہتے ہیں جو حکومت کے قریب ہیں اور بی جے پی کو فنڈنگ فراہم کرتے ہیں، جبکہ بدلے میں انہیں مارکیٹ پر اجارہ داری حاصل ہو جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: نتیش کمار کی حجاب کھینچنے کی حرکت پر چوطرفہ تنقید، استعفیٰ کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ اگر معیشت کی باگ ڈور مضبوطی ایم ایس ایم ایز کے ہاتھ میں دی جائے تو نوجوانوں کیلئے بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، صارفین کو سستے اور معیاری متبادل میسر آئیں گے اور چھوٹے کاروبار ملکی ترقی میں برابر کے شراکت دار بن سکیں گے۔ راہل گاندھی نے اس سے قبل ۵؍ دسمبر کو بھی اجارہ داری کے مسئلے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، خاص طور پر ایئر لائن انڈیگو میں بڑے پیمانے پر خلل کے تناظر میں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایسے بحرانوں کی قیمت ہمیشہ عام شہریوں کو ادا کرنی پڑتی ہے، جو تاخیر، پروازوں کی منسوخی اور مہنگے کرایوں کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ واضح رہے کہ انڈیگو حالیہ دنوں میں پائلٹوں اور عملے کی کمی کے باعث سیکڑوں پروازیں منسوخ یا تاخیر کا شکار کر چکی ہے۔ یہ صورتحال نئے اور سخت ڈیوٹی اوقات کے قواعد کے نفاذ کے بعد مزید سنگین ہو گئی۔ انڈیگو روزانہ تقریباً ۲۳۰۰؍ پروازیں چلاتی ہے اور ملک کی گھریلو ایوی ایشن مارکیٹ کا تقریباً ۶۰؍ فیصد حصہ رکھتی ہے، جس کی وجہ سے کسی بھی بڑے خلل کا براہِ راست اثر لاکھوں مسافروں پر پڑتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK